ہو گا اس وقت قلت علم کا مرض عام تھا یہ صحابہ تابعین اور تبع تابعین پر بہت بڑا ظلم ہے۔ آپ نے ان بزرگوں کی توہین فرمائی ہے۔ ان بزرگوں کے علم وتفقہ کو محل نظر قرار دیا۔ اکر تقلید مصطلح ان ایام میں بھی موجود ہو تو علم و اجتہاد کا مثالی دور کونسا ہو گا۔ ابن قیم کا مسلکاً جناب سے مختلف سہی مکر ان کی غزارت علمی اور نکتہ رسی سے امید ہے انکار نہیں ہو گا۔ فرماتے ہیں: فإنا نعلم بالضرورة انه لم يكن في عصر الصحابة ترجل واحد اتخذ رجلا منهم يقلده في جميع أقواله فلم يسقط منها شيئا و اسقط أقوال غيره فلم يأخذ منها شيئا و تعلم بالضرورة ان هذا لم يكن في التابعين لا تابعي المتابعين فليكذبنا للمقلدون برجل واحد سلك سبيلهم الرخيمة في القرون الفضيلة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم وانما حدثت هذه البدعة في القرون الرابع المذموم على لسانه صلى الله عليه وسلم ( ص 222) یعنی ہم قطعا جانتے ہیں کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو کسی عالم کی تماٰم باتیں قبول کرے اور کسی دوسرے عالم کی کوئی بات نہ مانے۔ حضرا مقلدین ہمیں جھٹلانے کے لیے قرون خیر میں ایک آدمی بتا دیں جو اس کمزور رراہ پر چلا ہو۔ بلکہ یہ بدعت تقلید چوتھی صدی میں پیدا ہوئی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت فرمائی ہے۔ مولانا آپ عالم ہیں۔ ایک علمی درس گاہ میں مدرس ہیں۔ آپ جو چاہیں فرمائیں لیکن صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کےساتھ یہ مذاق نہ فرمائیں۔ آپ نے تقلید کے لیے یہی وجہ جواز بتائی ہے کہ جو شخص قرآن وسنت سے براہ راست احکام کو مستنبط کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اصل کے اعتبار سے اس کے لیے تقلید کی دونوں قسمیں جائز ہیں۔ ( فاران صفحہ 17 مئی 1965ء) آپ قرون مشہود بالخیر کی یہ خوبی بیان فرماتے ہیں کہ وہ بھی کنزہ قدوری کے اتباع کی طرح حشویت میں ملوث اور نظر و استنباط سے محروم تھے۔ محض فقہاء اور اہل علم کی مساعی پر وقت گزارتے تھے۔ نصوص فقہاء اور بزرگوں کی آراء کا اتباع اصل ظاہر پرستی اور ظاہریت ہے۔ صحابہ اس سے پاک تھے۔ ان کی نظر نہایت عمیق تھی اور ظاہریت اور حشویت کا نام تک نہ تھا۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |