نواب صدیق حسن خاں اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی کی مساعی اپنے وقت میں غیر مترقبہ نعمت تھیں ۔ اس ضمن میں بھوپال ، بنارس ، کلکتہ ، دہلی ، لاہور ، پشاور ، وغیرہ شہروں سے بے شمار لٹریچر شائع ہوا ۔ حدیث ، شروح حدیث وتراجم حدیث کے انبار لگا دیے گئے ۔ فقہ الحدیث کے ذخائر سے اہل علم کی الماریاں بھرپور ہو گئیں ۔ ان تمام مساعی میں شاہ ولی اللہ اور ان کے حکیمانہ تجدیدی کارنامے جلوہ افروز تھے ۔ اس وقت کسی تنفر کے بغیر جمود کو توڑنے اور علم و تحقیق کے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ حضرت شیخ الکل وشیخ الاسلام مولانا نذیر حسین صاحب اور ان کے تلامذہ کی قریبا یہی حکیمانہ روش رہی کہ کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر حق کی آواز کو دلوں میں جگہ دلائی جائے ۔ یمن کی راہ تقلید و جمود کے خلاف ایک آواز یمن سے بھی آئی ۔ امام شوکانی کے تلامذہ اور ان کی تصانیف میں جمود کے خلاف لہجہ کسی قدر تیز اور جارحانہ تھا ۔ مولانا ولایت علی بھی شوکانی کے شاگرد تھے لیکن ان پر ولی للہی انداز غالب تھا ۔ اس کے ساتھ جمود پسند علماء کی جارحیت نے تحریک میں شدت پیدا کر دی ۔ جارحانہ رسائل کا باہم تبادلہ ہوا دروس ، مواعظ ، مدارس ، مجالس میں چند سال خاصی گرمی آگئی انگریزی عدالت تک مقدمات پہنچے ۔ شاہ صاحب تقلید و جمود کی مخالفت کے باوجود حنفی شافعی قوم کے القاب سے پرہیز نہیں کرتے ، بلکہ اسے بسا اوقات پسند کرتے ہیں ۔ شاہ صاحب اور ان کے اتباع ایک حد تک حنفی شافعی کہلانا کچھ عیب نہیں سمجھتے بشرطیکہ تقلید اور جمود کے زیر اثر کتاب و سنت اور فقہ الحدیث کو نظر انداز نہ کیا جائے شاہ صاحب کی اسی واضح حکیمانہ دعوت کے بعد آج کے حضرات بریلی اور دیوبند کے لیے دو ہی راہیں ہو سکتی ہیں یا جمود کو رخصت کریں اور تقلید کی طرف دعوت سے کلیۃ پرہیز کریں یا پھر شاہ صاحب سے عقیدت کو ختم کریں ۔ ان دونوں چیزوں کا معا چلنا منکرے بودن وہمرنگ مستاں زیستن کے مترادف ہو گا ۔ شاہ صاحب کی مصلحت آمیز حقیقت سے کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے٭ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |