Maktaba Wahhabi

39 - 236
قرآن مجید میں جو چیز مطلقاً مذکور ہے حدیث نے خمس رضعات سے اسے مقید فرما دیا۔ رہا خبر واحد کا مظنون ہونا تو یہ بھی کامیاب عذر نہیں۔ خود فقہاء حنفیہ نے قرآن عزیز کی تخصیص کئی مقام پر فرمائی ہے۔ فرضیت جمعہ کے لئے علی العموم سورہ جمعہ کی آیت سے استدلال فرمایا گیا ہے[ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ](الجمعہ:9)غلام، مسافر، عورت وغیرہ کا استثناء خبر واحد ہی سے عمل میں آیا ہے۔ مکروہات کو جمعہ سے مستثنیٰ کرنے کے لئے مرفوع روایت بھی میسر نہیں آسکی۔ وہاں صرف حضرت علی کے اثر سے ہی قرآن عزیز کی تخصیص کا لے لیا گیا۔ ع دراز دستی ایں کوتاہ آستینان ببیں شاہ صاحب سمجھتے تھےکہ ایسے ہی اصول جن کی ساخت کے ساتھ ان کی شکست کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہو دین کی بنیاد اور اجتہاد اور تفقہ کی اساس نہیں قرار پاکستے۔ اور حضرات ائمہ اصول اور فقہاء حنفیہ آیت کے اس احترام کو بھی قائم نہ رکھ سکے۔ معلوم ہے کہ آیت میں رضاع کی وجہ سے صرف ماں کی حرمت کا ذکر ہے نص قرآن میں کسی دوسرے رشتہ کا ذکر نہیں لیکن حدیث شریف میں حضرت علی سے مروی ہے: إن الله حرم من الرضاع من حرم من النسب (ترمذی ج2 ص197) جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں، رضاع کی وجہ سے بھی حرام ہوں گے۔ اس مقام پر آیت کی وضاحت میں مزید وسعت حدیث سے ہوئی۔ یہ زیادت خر واحد کی بنا پر ہی کی گئی ہے۔ اسی طرح آیت میں مدت رضاع کا کوئی ذکر نہیں کس عمر میں دودھ پیا جائے تو وہ حرمت میں مؤثر ہوگا۔ آیت اس میں خاموش ہے لیکن جمہور ائمہ کے نزدیک وہی رضاع مؤثر ہوگی جو بچے کی غذا بنے۔ حدیث شریف میں ام سلمہ سے مروی ہے: لا يحرم من الرضاع إلا ما فتق رضاع وہی مؤثر ہوکی جو دو سال سے
Flag Counter