Maktaba Wahhabi

84 - 236
بعد جن مسائل میں اتفاق پیدا ہو جائے۔ انہیں دانتوں میں تھام لیا جائے۔ اگر اختلاف ہو تو انہیں دو قول تصور کر لیا جائے اور دونوں پر عمل صحیح سمجھا جائے۔ یہ اختلافات قراءت قرآن کی طرح سمجھا جائے یا رخصت اور عزیمت پر محمول کیا جائے یا تنگی سے نکلنے کے لئے دو راہیں اختیار کر لی جائیں۔ یا دونوں کو مباح سمجھا جائے اور معاملہ اس سے آگے نہیں جانا چاہئے۔‘‘ شاہ صاحب نے حنفیت کی کثرت ہندوستان میں دیکھی۔ اور شوافع کی کثرت انہیں حجاز میں نظر آئی۔ اس لئے انہوں نے ان دونوں میں اتحاد کی ضرورت کو محسوس فرمایا۔ اگر شاہ صاحب نجد اور سوڈان میں حنبلیہ اور مالکیہ کو ملاحظہ فرما لیتے تو ان ہی وجوہ کی بناء پر ان کو بھی ان کے ساتھ ملا دیتے اور ان کے ساتھ اتحاد کو ضروری سمجھتے۔ اگر ان مسالک میں اتحاد دین کے کسی تقاضا کو پورا کر سکتا ہے تو مذاہب اربعہ میں اتحاد کی کوشش اور آرزو یقیناً اس تقاضا کو پورا کرے گی۔ اور شاہ صاحب ان مصالح کو اسلام کی روح تصور فرماتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فقہی افکار کا جمود شاہ صاحب کے ذہن پر ایک بوچھ ہے جس کے لئے وہ بے حد متفکر ہیں۔ طلباء کو نصیحت اور علوم دین اور علوم دنیا میں تمیز فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: خضتم کالخوض في استحسانات الفقہاء من قبلكم وتفريعاتهم بما تعرفون أن الحكم ما حكم الله ورسوله ورب إنسان منمكم يبلغه حديث من أحاديث نبيكم فلا يعمل به ويقول إنما العمل به مذهب فلان لا على الحديث ثم اختال بأن فهم الحديث والفقهاء به من شأن الكمل المهرة وإن أئمة لم يكونون ممن يخفى عليهم هذا الحديث فما تركوه إلا لوجه ظهر لم تمہاری توجہ پوری طرح فقہاء کے استحسانات اور تفریعات کی طرف ہے اور تم نہیں جانتے کہ در حقیقت حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کے رسول کا اور تم میں سے بہت سے لوگوں کو آنحضرت کی حدیث پہنچ جاتی ہے لیکن وہ اسے اس لئے قابل عمل نہیں سمجھتا کہ اس کا عمل فلاں مذہب پر ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا تو ماہرین اور اصحاب کمال کا کام ہے اور ائمہ پر کوئی چیز مخفی نہ تھی۔ ان کو اس حدیث کا علم ضرور ہوا ہوگا۔ اور کوئی وجہ از قسم نسخ اور
Flag Counter