حجۃ اللہ کا مقام "باب الفرق بين أهل الحديث وأهل الرأي" شہرستانی کے اسی مقام کی شرح معلوم ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد اس وقت اس جہالت آمیز غلط فہمی کی اصلاح ہے جو بعض علمی حلقوں کی طرف سے پھیلائی گئی ہے کہ ’’اہل حدیث محض فنی خدمت کا نام ہے۔‘‘ شہرستانی کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں قدیم مکتب فکر ہیں، جو اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے استفادہ کرتے۔ ان کا باہم رد تردید کا مشغلہ تو رہا ہے مگر کسی نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔ شہرستانی کے دونوں اقتباسات سے ظاہر ہے کہ اصحاب الحدیث ایک مکتب فکر ہے جس نے احادیث کے متون اور اسانید کی حفاظت فرمائی۔ پھر اس پر فقہی تبویت فرمائی۔ فروع اور عقائد کی صحت پر استدلال فرمایا۔ شخصی آراء تو ان کے ہاں کوئی قیمتی چیز نہیں۔ اس لئے فقہائے عراق یا دوسرے فقہاء کی طرح ان لوگوں نے اپنی فقہ ایجاد نہیں فرمائی، تاکہ لوگ اس پر تقلیدی انداز میں اعتماد نہ کرنے لگیں لیکن کتاب وسنت سے استنباط کی راہیں اور قیاس صحیح کے استعمال کی راہ کھولی۔ شخصی آراء پر نصو شرعیہ کی برتری کو واضح کیا اور فقہ الحدیث کا بہت بڑا ذخیرہ اہل علم کے سامنے رکھ دیا۔ تاریخ کے امام اور تنقید کے مؤسس علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون 808ھ کا ایک اقتباس قابل غور ہے، فرماتے ہیں: وانقسم الفقه فيهم إلى طريقين طريق أهل الرأي والقياس وهم أهل العراق وطريقة أهل الحديث وهم أهل الحجاز وكان الحديث قليلا في أهل العراق لما قدمناه فاستكثروا من القياس ومهروا فيه فلذلك قيل أهل الرأي ومقدم جماعتهم الذي استقر المذهب فيه وفي أصحابه أبو حنيفة (مقدمة ابن خلدون ص389) ’’فقہ کی دو قسمیں ہوگئیں۔ فقہ اہل الرائے جن کا مرکز عراق ہے اور فقہ اہل الحدیث جن کا مرکز حجاز ہے۔ اہل عراق میں حدیث کا چرچا کم تھا اور وہ قیاس میں ماہر تھے ان کے امام حضرت امام ابو حنیفہ ہیں۔‘‘ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |