Maktaba Wahhabi

638 - 670
نے عورتوں سے بیعت کے وقت کہا تھا: "إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ "[1]" یقینا میں عورتوں سےمصافحہ نہیں کرتا" اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انھوں نے کہا: " اللہ کی قسم!اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ کسی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں لگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے صرف گفتگو سے بیعت لیا کرتے تھے " اور اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰـهَ كَثِيرًا " بلاشبہ یقیناً تمہارے لئےاللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو، اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" اور اس لیے کہ عورتوں کے غیر محرموں سے مصافحہ کرنا دونوں طرفوں سے فتنے کے ذریعہ ہے تو اسے چھوڑنا ہی ضروری ہے،البتہ ایسا شرعی اسلام جس میں فتنہ نہ ہو،مصافحہ نہ ہو،شک وریب نہ ہو،نرم بات نہ ہو اورتنہائی کے بغیر اور پردے کے ساتھ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،اللہ عزوجل کے فرمان کی وجہ سے: ﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ’’اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقوی اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو۔‘‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عورتوں پر جو اشکال ہوتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشکل امور میں فتویٰ پوچھ لیتیں۔ایسے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے بھی اپنے اوپر اشکال کی صورت میں پوچھ لیا کرتی تھیں،البتہ عورت کا دیگر عورتوں اور اپنے محرم رشتہ دار مردوں،مثلاً اپنے باپ،بھائی اور چچا وغیرہ سے مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
Flag Counter