Maktaba Wahhabi

525 - 670
خلع کے احکام خلع کی حقیقت کا بیان: سوال:کتاب و سنت کی روشنی میں خلع کی حقیقت کیا ہے؟ جواب:کتاب و سنت کی روشنی میں خلع کا مطلب ہے کہ عورت خاوند کو ناپسند کرتی ہو اور اس سے جدائی کا ارادہ رکھتی ہو تو وہ خاوند کو سارا یا کچھ حق مہر دے کر اپنی جان کا فدیہ دے جس طرح قیدی اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے فدیہ دیا کرتا ہے۔ جب عورت خاوند کو ناپسندرکھتی ہو اور اس سے جدائی حاصل کرنا چاہتی ہو تو وہ اس سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کا فدیہ دے گی اورجوحق مہر اس نے خاوند سے لیا ہے وہ واپس کردے گی اور جو اس کے ذمہ ہے اس کو بری کردے گی اور خاوند اس کو خلع دے دے گا، جیسا کہ یہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) خلع کے ایک طلاق شمار ہونے اور اس میں لفظ طلاق اور نیت کا حکم: سوال:کیا خلع تین طلاقوں میں سے ایک طلاق شمار ہو گی ؟کیا اس کے لیے شرط ہے کہ یہ لفظ طلاق اور اس کی نیت کے بغیر ہو؟ جواب:اس مسئلے میں سلف و خلف میں اختلاف کافی مشہور ہے۔ پہلا قول : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگردوں کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ خلع فرقت بائنہ اور فسخ نکاح ہے، اگر کوئی دس مرتبہ بھی اپنی بیوی کو خلع دے تو تین طلاقوں میں سے کوئی طلاق نہ ہوگی بلکہ مرد کو اس سے پہلے کہ وہ عورت کے علاوہ کسی اور شخص سے شادی کرے اس سے عقد جدید کرنے کا حق ہوگا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے اور ان کے شاگردوں میں سے ایک جماعت نے بھی اسی موقف کو اختیار کیاہے، اور یہی قول ہے جمہور فقہائے حدیث کا ،جیسے کہ اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ ،داؤد بن منذر رحمۃ اللہ علیہ ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے شاگردوں طاؤس اور
Flag Counter