Maktaba Wahhabi

707 - 670
ہے۔توا گر وہ اسے ہبہ کردے یا خوشی اور اختیار سے کوئی حصہ دے جس کا شرعاً اعتبار ہوتا ہے تو یہ جائز ہوگا ،اور اگر وہ اسے ہبہ نہیں کرتی تواس کے لیے اسے لینا جائز نہیں ہوگا۔اور اس کے والد کے لیے خاص طور پر اس سے اتنے کا مالک بننا جائز ہے جو اس(عورت) کو نقصان نہ دے اور وہ اس کے ساتھ اپنے کسی دوسرے بچے کو شریک نہ کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے ثابت ہوتاہے : "إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ ، وَإِنَّ أَوْلادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ"[1] "تمہارے کھانے سے سب سے عمدہ وہ ہے جو تم نے کمایا،اورتمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی سے ہے۔"(سعودی فتویٰ کمیٹی) قاضی کا عورت پر اس کی مرضی کے بغیر اس کے بھائی کو وکیل بنانا: سوال:کیا قاضی شہر کے لیے کسی عورت کو اجازت کے بغیر اس کے بھائی یا اس کے علاوہ اسے جس کی وکالت کو وہ پسند نہ کرتی ہو،وکیل بنانا جائز ہوگا؟ جواب:اگر وہ بالغہ،عاقلہ اور رشیدہ ہوتو اس کے مال میں اس پر وکیل مقرر کرنا ناجائز ہے،اس صورت میں کہ وہ(عورت) اپنی خرید وفروخت میں عموماً نقصان نہ کرتی ہو اور نہ ہی اپنا مال حرام اور بغیر مقصد کے خرچ کرتی ہو۔(سماحۃ الشیخ محمدبن آل ابراہیم آل الشیخ) یتیموں کے اموال کامسئلہ یتیموں کا ولی کب ان کو مال سپرد کرے؟ سوال:یتیموں کے ولی کو کب ان کا مال ان کے سپرد کرنا جائز ہوگا؟ جواب:یتیموں کا مال ان کے ولی کے لیے اسی وقت سپرد کرنا جائز ہوگا جب وہ ان سے دانائی کو محسوس کرے اور وہ اس طرح کہ وہ اپنے مالوں میں حسن تصرف کرنے اور حرام میں خرچ نہ کرتے ہوں۔ان کو سپرد کرنے کا وقت بلوغت نہیں بلکہ بلوغت کے بعد عقلمندی اور حسن تدبیر کی صفت سے متصف ہوناہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
Flag Counter