Maktaba Wahhabi

527 - 670
بلا شبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کو دو طلاقوں اور ایک خلع کے بعد اور اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے سے نکاح کرنے سے پہلے اس کے خاوند کی طرف نکاح کرنے کے لیے لوٹا دیا تھا۔ ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص کو جب زبیر رضی اللہ عنہ نے یمن کا والی بنایا تو انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا:یمن والوں کی عام طلاق فدیہ (دے کر خلع لینا)ہی ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو جواب دیا کہ فدیہ (دے کر خلع لینا) طلاق نہیں ہے ،لوگوں نے طلاق کا خلع نام رکھنے میں غلطی کی ہے ۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) جب عورت نے خاوند کو طلاق کے عوض ذمہ داریوں سے بری کردیا ،بعد میں براءت ساقط کرنے کے لیے اپنی بیوقوفی کا دعویٰ کیا: سوال:ایک خاوند نے اپنی بیوی سے کہا: اگر تو مجھے میری ذمہ داروں سے سے بری کر دے تو میں تجھے طلاق دے دوں گا ،پس عورت نے اس کو بری کردیا۔ وہ عورت ایسی نہیں ہے کہ اس کو کم عقلی کی وجہ سے تصرف کرنے سے روکا گیا ہو ،نہ اس کا باپ ہے نہ بھائی، پھر اس عورت نے دعویٰ کیا کہ وہ بیوقوف ہے تاکہ وہ اس براءت کو ساقط کر سکے کیا اس دعوے کے بعد براءت ساقط ہو جائے گی؟ جواب:صرف اس کے دعوے سے براءت باطل نہیں ہو گی اگر وہ اپنی بے وقوفی پر کوئی دلیل پیش کردے اور وہ ایسی عورت نہیں ہے کہ اس کو کم عقلی کی وجہ سے تصرف سے روکاگیا ہو تو اس سے براءت ساقط نہیں ہو گی اگر وہ خود ہی تصرف کرنے والی ہو۔ واللہ اعلم۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) سوال:ایک عورت نے اپنے خاوند کو اپنے کل حق مہر سے بری کردیا ،پھر اس کے بعد خاوند نے اپنے متعلق یہ گواہی دی کہ بلا شبہ اس نے اپنی مذکورہ بیوی کو حق مہر سے بری کرنے کی بنیاد پر طلاق دے دی ،براءت طلاق سے مقدم تھی ۔کیا طلاق صحیح ہے؟ اور اگر طلاق واقعی ہوگئی ہے تو کیا رجعی طلاق ہو گی یا نہیں؟ جواب:اگر دونوں میاں بیوی نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ بیوی اپنا حق مہر خاوند کو ہبہ کر کے
Flag Counter