Maktaba Wahhabi

458 - 670
کرے۔علماء میں سے بعض نے دوسری صورت کے علاوہ پہلی صورت کو شغار معتبر جاناہے اور اس سے منع کیا ۔ابن عبدالبر نے کہا: "علماء کا اس پر اجماع ہے کہ نکاح شغار جائز نہیں ہے لیکن انھوں نے اس کی صحت میں اختلاف کیا ہے۔" مگر جمہور اس کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے:دخول سے قبل تو نکاح فسخ ہوگا مگردخول کے بعد نہیں۔اسی موقف کو ابن المنذر نے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیاہے حنفیہ اس کی صحت اور وجوب مہر کے قائل ہیں۔امام زہری ،مکحول،ثوری اور لیث رحمۃ اللہ علیہ کابھی یہی قول ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہے۔" ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے"زاد المعاد" میں کہاہے: "اس میں فقہاء کا اختلاف ہے،پس امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:شغار باطل یہ ہے کہ ایک شخص اپنی ولیہ کی شادی کرے اس بنا پر کہ وہ دوسرا بھی اپنی ولیہ کی شادی کرے اور ان کے درمیان مہرمقرر نہ ہو،لہذا اگر وہ اس کے ساتھ مہر مقرر کرلیں تو ان کے نزدیک مہر مسمیٰ کی وجہ سے عقد صحیح ہوگا۔ اور خرقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:" اگر مہر مقرر کرلیں پھر بھی نکاح صحیح نہ ہوگا۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ابو البرکات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا:اور اگر وہ مہر مقرر کریں اور ساتھ ہی یہ کہیں کہ ہر ایک دوسرے کاحق مہر پس انداز کردے گا تو نکاح صحیح نہ ہوگا ،اور اگر وہ یہ نہ کہیں تو نکاح صحیح ہوگا۔انھوں نے "محرر" میں کہا:جس کسی نے ولیہ کا نکاح کسی شخص سے اس بنا پر کیا کہ وہ دوسرا بھی اپنی ولیہ کا اس سے نکاح کرے گا،اس نے اس کو قبول کرلیا اس طرح کہ ان دونوں کے درمیان حق مہر بھی نہ تھا تو عقد صحیح نہیں ہوگا اور اس کا نام نکاح شغار رکھا جائے گا،اوراگر وہ مہر مقرر کریں تو مہر مسمیٰ کے ساتھ عقد صحیح ہوگا اور اس پر نص موجود ہے۔
Flag Counter