Maktaba Wahhabi

457 - 670
شرمگاہ دینے کے معنی میں ہے۔ نکاح شغار کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔بلاشبہ وہ شریعت الٰہیہ کے مخالف ہے،جیسے کہ اس کی حرمت اور مقاصد شریعت کے خلاف ہونے پر صحیح احادیث شریفہ دلالت کرتی ہیں،چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں نافع ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔اور صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ "[1] "اسلام میں شغار نہیں ہے۔" نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا،اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کہے: تو مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دے،میں تجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دوں گا،یا تو مجھ سے اپنی بہن کی شادی کردے،میں تجھ سے اپنی بہن کی شادی کردوں گا۔ اور صحیح مسلم میں ابوالزبیر سے روایت ہے کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا۔ اور عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کی شادی کی اور عبدالرحمان نے ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی،انھوں نے حق مہر بھی مقرر کیا مگر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم(گورنر مدینہ) کو خط لکھ کر حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے درمیان جدائی کروادیں۔اور اپنے خط میں یہ بھی لکھاکہ یہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔(اس کوا حمد اور ابو داود نے بیان کیا ہے) علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے شغار کی تفسیر اور اسی طرح اس کی صحت میں اختلاف کیا ہے،قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے"نیل الاوطار" میں فرمایا کہ شغار کی دو صورتیں ہیں: ایک صورت تو وہ ہے جس کا احادیث میں ذکر ہواہے اور وہ ہے دونوں کی طرف سے حق مہر سے خالی ہونا،اور دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں ولیوں میں سے ہر ایک ولی دوسرے پر یہ شرط لگائے کہ وہ اپنی ولیہ کی اس سے شادی
Flag Counter