Maktaba Wahhabi

455 - 670
نہیں ہے کیونکہ بہت سے امور اور معاملات میں عادت اور عرف کی طرف رجوع کرنا ایک بری اہم بنیاد ہے، خاص طور پر ان مسائل میں جن کی دلیل نہ ہو،اور یہ مسئلہ بھی انھی مسائل میں سے ہے۔(السعدی) حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے باری تقسیم کرنے کا حکم: سوال:حیض ونفاس والی عورت کے لیے باری تقسیم کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: مذاہب کا مشہور قول یہ ہے کہ حائضہ اور نفاس والی عورت میں سے ہر ایک کے لیے باری تقسیم کرنا واجب ہے کیونکہ یہ سب بیویاں ہی ہیں،لیکن وہ صحیح بات جس پر عمل ہے وہ یہ کہ حائضہ کے لیے باری مقرر کی جائے گی۔رہی نفاس والی عورت تو اس کے لیے باری مقرر نہیں کی جائے گی کیونکہ عرف میں عادت ایسے ہی چلتی ہے اور وہ باری کے ترک پر راضی بھی ہوتی ہے بلکہ غالب یہ ہے کہ جب تک عورت نفاس میں ہوتی ہے اس کو یہ رغبت نہیں ہوتی کہ خاوند اس کی باری مقرر کرے۔(السعدی) بیوی کو اپنے حقوق سے دستبردار ہونے اور طلاق لینے کے درمیان اختیار دینا: سوال:جب ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،اس کی ماں اس کو ایک کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر مجبور کردے تو وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس حقوق کی کوتاہی پر صبر کرکے رہنے اور اپنے سے جدائی کے درمیان اختیار دے، بیوی نے اس کے پاس رہنے کو ہی اختیار کرلیا۔کیا مرد کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب:جب خاوند بیوی کو اختیار دے اور بیوی اس کے پاس رہنے کو پسند کرلے تو اس معاملے میں کوئی حرج نہیں اور مرد پر اس سلسلہ میں کوئی گناہ نہیں،گناہ اور حرج اس کی ماں پر ہے جس نے اس کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔اگر اس کے لیے ممکن ہوکہ وہ ماں کو از خود یا کسی ایسے شخص کے واسطے سے جس کی بات وہ مانتی ہو نصیحت کرے اور اس کو بتائے کہ اس کو ایسا کرنا حلال نہیں ہے اوراس کو دنیا و آخرت کی سزا کا خطرہ ہے تو اس کو یہ نصیحت کرنا لازم ہے نہیں تو اللہ کسی نفس کواس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔(السعدی)
Flag Counter