Maktaba Wahhabi

442 - 670
دوسرے کو نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔لیکن جب وہ عیب ظاہر ہونے کے بعد راضی ہو جائے تو اب اسے نکاح فسخ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ جب عورت نکاح فسخ کرے تو اس کو اپنے جہیز میں سے کچھ لینا جائز نہیں اگر عورت دخول سے پہلے نکاح فسخ کردے تو اس کا مہر ساقط ہو جائے گا اور اگر وہ دخول کے بعد نکاح فسخ کرے تو اس کا حق مہر ساقط نہ ہو گا۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) سوال:ایک شخص نے کسی کنواری سے شادی کی تو اس کو ایسی مستحاضہ پایا جس کا خون باپ کے گھر سے آنے سے لے کر منقطع نہیں ہوا ،اس لڑکی کے گھروالوں نے اس کو دھوکا دیا ،کیا مرد کے لیے نکاح فسخ کرنے کا حکم ہے؟اور جس نے اس کو دھوکا دیا ہے اس سے وہ حق مہر وصول کرسکتا ہے؟کیا اس لڑکی کے ماں باپ جب انکار کریں تو ان سے قسم لینا واجب ہے؟اور کیا اس کے لیے اس مستحاضہ سے وطی کرنا جائز ہو گا یا نہیں؟ جواب:یہ ایک ایسا عیب ہے کہ جس کے ساتھ امام احمد وغیرہ کے مذہب میں دو صورتوں میں سے زیادہ ظاہر صورت کے مطابق فسخ نکاح ثابت ہو جا تا ہے اور وہ دو صورتیں درج ذیل ہیں: پہلی صورت:بے شک اس کے ہوتے ہوئے وطی ممکن نہ ہو مگر نقصان کے ساتھ جس کا اسے خوف ہو، اور تکلیف کے ساتھ جو اس کو حاصل نہ ہوتی ہو۔ دوسری صورت:یہ ہے کہ بلا شبہ مستحاضہ سے وطی کرنا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور مذہب کے مطابق جائز نہیں ہے، الایہ کہ کوئی ضرورت ہو۔ اور جو عیب محسوس طریقے سے وطی سے روک دیتا ہے، مثلاً فرج کا بند ہو جانا یا طبعاً روک دیتا ہے، مثلاً جنون اور کوڑھ ،وہ عیب امام مالک ، شافعی،اور احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک فسخ نکاح کو ثابت کر دیتا ہے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور جونسا عیب وطی مکمل ہونے سے روک دے، مثلاً فرج میں نجاست کا ہونا تو اس میں اختلاف مشہور ہے اور مستحاضہ کی نجاست دوسری نجاستوں سے زیادہ غلیظ ہے۔ جب مرد دخول سے پہلے نکاح فسخ کردے تو اس کے ذمہ حق مہر دینا نہیں ہے، اور
Flag Counter