Maktaba Wahhabi

440 - 670
راضی ہو جاتی ہے تو اسے اس کا بھی حق حاصل ہے اور جب وہ اس شرط کو ساقط کردے تو یہ شرط ساقط ہوجائےگی۔‘‘(محمد بن ابراہیم ) عورت کا مرد پر شرط لگانا کہ وہ اس کو تدریس سے نہیں روکے گا: سوال:جب بیوی خاوند پر شرط لگائے کہ وہ اس کو تدریس سے منع نہیں کرے گا اور خاوند اس شرط کو قبول کرلے۔ خاوند کے اس شرط کو قبول کرلینے کے بعد عورت نے اس کے ساتھ شادی کرنا قبول کر لیا۔ کیونکہ مرد نے اس کی لگائی ہوئی شرط سے موافقت کی تھی ۔کیا مرد پر بیوی اور اس کے بچوں کا خرچ لازم ہوگا؟ جبکہ وہ تنخواہ دار ملازمہ ہے ۔کیا مرد کے لیے اس کی تنخواہ سے بغیر اس کی رضا کے کچھ لینا جائز ہے؟اور جب عورت دیندار ہواور وہ گانے اور موسیقی نہیں سننا چاہتی اور اس کے گھر والے اس کو گانے سنانے پر مصر ہیں تو کیا اس حالت میں بیوی کا اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا درست ہے؟ جواب:جب عورت نے نکاح کا پیغام دینے والے پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اس کو تدریس سے نہیں روکے گا یا پڑھائی سے نہیں روکےگا۔مرد نے یہ شرط قبول کر لی اور اس شرط پر اس سے شادی کرلی تو یہ شرط صحیح ہے۔ تو اب مرد کے لیے اس سے دخول کرنے کے بعد تدریس وغیرہ سے روکنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج"[1] "بلا شبہ شروط میں سے پوری کی جانے کے لائق وہ شرط ہے جس کے ساتھ تم شرمگاہوں کو حلال کرتے ہو۔" اس روایت کی صحت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے ،پس اب اگر مرد اس کو تدریس وغیرہ سے روکے گا تو عورت کو اختیار ہوگا ۔اگر چاہے تو اس مرد کے پاس رہے اور اگر چاہے تو شرعی قاضی سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔ رہا خاوند اور اس کے گھر والوں کا گانا اور موسیقی سننا تو یہ نکاح فسخ نہیں کرتا ۔عورت
Flag Counter