Maktaba Wahhabi

381 - 670
"ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے۔" جابر رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ بے شک ہم عزل کرتے رہے اور قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں اترا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا شبہ وہ جائز ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مکروہ ہے۔ رہا یہ سوال کہ عزل کی کراہت کا حکم کہاں سے آیا ؟تو یہ حکم ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کرنے سے حاصل ہوا: "تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ، فَإِنِّي مباه بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة، وفي لفظ : فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة"[1] "ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہیں، کیونکہ میں تمہاری وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔" اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں : ’’ تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخرکروں گا۔‘‘ وہ شخص جو اپنی بیوی سے عزل کرتا ہے بلا شبہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رغبت کو نہیں مانتا ہے۔ اس کام کے لیے حکومت نے ایک محکمہ بنادیا ہے جس کو"تحدید النسل "یا "تنظیم النسل"(منصوبہ بندی) کانام دیا ہے، بہر حال یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت اور فخر کی رغبت کے خلاف ہے، پھر اس کام میں مغرب کی تقلید ہے، وہ مغرب جو بچوں کی تربیت سے حاصل ہونے والے اجر و ثواب پر ایمان نہیں رکھتا، وہ اجروثواب جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "إِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثٍ : صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ "[2] "جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا وہ نیک بچہ جو اس کے حق میں دعا کرتا ہے۔" نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اپنی صحیح
Flag Counter