Maktaba Wahhabi

306 - 670
"دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة، وشبك صلی اللہ علیہ وسلم بين أصابعه" [1] "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا کہ قیامت تک کے لیے عمرہ حج داخل ہو گیا ہے۔" اس لیے کہ یہ عام حکم ہے اور وہ بات درست نہیں ہے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ تمتع اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، اس لیے کہ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کر کے حلال ہونے کا حکم دیا اور وہ مروہ پر تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا: "لولا أني سقت الهَدي لحللت معكم" [2] "اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی تمہارے ساتھ عمرہ کر کے حلال ہو جا تا۔" تو سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سوال کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہمارا یہ حج تمتع اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بل لأبد الأبد ، ودخلت العمرة في الحج يوم القيامة." [3] "بلکہ یہ ابدالاباد کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔" (علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ ) عمرہ درمیان میں چھوڑ کر حج کرنے کا حکم : سوال:گزشتہ سالوں میں سے ایک سال ہم حج کے لیے گئے اور ہمارے ساتھ ایک ایسی عمررسیدہ خاتون تھی جو کبھی بیماریوں سے شفا یاب نہیں ہوتی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی ہوتی تھی ۔ہم نے حج تک فائدہ اٹھانے کے لیے عمرے کا احرام باندھا اور جب ہم حرم میں آئے تو اس عورت کے لیے اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ وہ بیماری اور رش کی وجہ سے طواف مکمل نہ کر سکی اور پھر ہمیں منیٰ لے جایا گیا، پھر وہاں سے
Flag Counter