Maktaba Wahhabi

305 - 670
ممکن ہے لیکن ہمارا اس کو اپنا طریقہ بنانا اور اس کو حج قران اور تمتع سے افضل قرار دینا تو اس کی مطلق طور پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور فی الحقیقت یہ لوگ اپنے مذہب کی تائید میں جھگڑا کرتے ہیں نہ کہ سنت کی مدد کے لیے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا اور لوگوں کے سامنے عام بیان کردیا کہ ان کے قران سے تمتع افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی دلیل کے ساتھ : "لو استقبلت من أمري ما استدبرت لما سقت الهدي ولجعلتها عمرة "[1] "اگر مجھے اپنے اس امر (تمتع کے قران سے افضل ہونے ) کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لے کر آتا اور میں اس کو عمرہ بناتا۔" پس جب صحیح سند سے ثابت ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حج مفرد کیا ،کیا وجہ ہے کہ انھوں نے اس بات کو نذر انداز کردیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھارا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا ؟نیز وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بھی بھولتے ہیں: "دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة، وشبك صلی اللہ علیہ وسلم بين أصابعه" [2] "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا کہ قیامت تک کے لیے عمرہ حج داخل ہو گیا ہے۔" اور ہم یہ نہیں کہتے کہ حج مفرد باطل ہے لیکن ہم قطعی طور پر اس کو غیر مشروع قراردیتے ہیں اور اسی لیے ہم ہر حاجی کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ حج تمتع کرے، پس اگر وہ کسی دوسری قسم کا حج کرنا چاہتا ہے تو حج قران وہ ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ مقام سے اپنے ساتھ قربانی لائے تھے، اور قربانی لائے بغیر قران کرنا تو یہ وہ چیز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نصوص کے ذریعہ منع فرمایا ہے، ان میں سے واضح نص یہ ہے:
Flag Counter