Maktaba Wahhabi

83 - 264
میں نہیں ملے گا تو صحابہ کرام کے اقوال کو لوں گا لیکن ان کے اقوال میں جس کو چاہوں گا لے لوں گا اور جس کو چاہوں گا چھوڑ دوں گا۔ مگر ان کے قول کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف نہیں جاؤں گا۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ: {وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ}… (التوبہ:100) کو حجت بنا کر صحابہ کرام کی اتباع و پیروی کو مشروع قرار دیا ہے البتہ ظاہریہ نے ان کی مخالفت ضرور کی ہے ان کے نزدیک صحابی کا مذہب حجت نہیں ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی تالیفات کے مختلف مقامات پر اس کی صراحت کی ہے۔ خاص طور پر ’’المحلٰی‘‘ اور ’’الإحکام فی أصول الأحکام‘‘ میں۔ اب چند وجوہ کی بنیاد پر جو بات راجح ہے وہ یہ ہے کہ: (1)… صحابی کا وہ مذہب جو صحابہ کرام کے درمیان عام ہوگیا تھا اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی تو یہ اجماع سکوتی کے قبیل سے ہے اب اگر کتاب و سنت میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے تو اس رائے کو دوسروں کی رائے پر مقدم کیا جائے گا جمہور علماء کے نزدیک یہ حجت ہے۔ اس کی مثال یہ ہے: جوربین پر مسح کرنا صحابہ کی ایک جماعت سے ثابت ہے ان صحابہ کرام میں: علی بن ابی طالب، انس بن مالک، ابومسعود، براء بن عازب اور ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس مسئلہ میں کسی صحابی کا اختلاف بھی نہیں ہے۔ البتہ جو حدیثیں اس سلسلے میں پائی جاتی ہیں وہ متکلم فیہ ہیں۔ (2)… صحابی اپنی رائے میں منفرد ہے، لیکن کسی دوسرے صحابی کی رائے یا اس کا مذہب اس کے خلاف بھی نہیں ہے تو اکثر لوگوں کے نزدیک یہ بھی حجت ہے بشرط یہ ہے کہ کسی شرعی نص یا کسی راجح قول کے خلاف نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:”الأذنان من الرأسی‘‘[1]دونوں کان سر کا حصہ ہیں۔ اسی روایت سے امام احمد نے بھی دلیل پکڑی ہے۔ کسی صحابی نے اس قول کی مخالفت بھی نہیں کی اور نہ ہی کسی صحابی کا قول اس کے مخالف ہے اس کی مثال یہ ہے: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ’’وہ اپنے کے
Flag Counter