مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں۔ ابوعیسیٰ کہتے ہیں: ابوحمزہ محمد بن میمون ہی ہیں۔ یہ ایک صالح شیخ تھے، یہ بات انہوں نے ان کی حیات مبارکہ میں کہی تھی۔ میں کہتا ہوں کہ اس بات کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جس کو ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں:
((الجماعۃ ماو دافق الحق وإن کنت وحدک))
”جماعت وہی ہے جو حق کے موافق ہو اگرچہ وہ ایک فرد ہی کیوں نہ ہو“
کتاب و سنت کی طرف محض نسبت اور ان دونوں پر عمل کے درمیان بہت بڑا فرق ہے:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث واضح اور صریح انداز میں اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نجات پانے والی جماعت انہیں تہتر فرقوں میں سے ہوگی جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں واقع ہونے کی خبر دی ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سچ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی، اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی،} (النجم:3تا4)
’’اور وہ نفسانی خواہشات سے بات نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ ایک وحی ہوتی ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘
لہٰذا فرقہ ناجیہ سے مراد وہ جماعت ہرگز نہیں ہے جو اپنی نسبت کتاب و سنت کی طرف تو ضرور کرتی ہے لیکن ان کے مطابق اس کا عمل نہیں ہوتا جیسا کہ اس دور میں بہت سی جماعتیں کر رہی ہیں کہ اپنی نسبت تو ضرور کتاب و سنت کی طرف کرتی ہیں لیکن کتاب و سنت سے کوسوں دور رہتی ہیں اور اپنی نسبت کتاب و سنت کی طرف صرف اس لیے کرتی ہیں تاکہ لوگ اسے مسلمان سمجھیں ورنہ اگر ان کی طرف نسبت نہ ہو تو پھر اسلام سے خارج ہونے کا الزام لگ جائے گا۔ اس لیے آپ ہر فرقے کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے آپ کو کتاب و سنت ہی کی طرف منسوب کرتا ہے۔
|