اجتناب کرنا ہوگا جن سے آپ سب واقف ہیں اور جن کی کچھ مثالیں ہم پہلے بیان کر آئیں ہیں، جیسے شرک، قتل، سود وغیرہ وغیرہ۔
میں اس موقع پر اس پہلی بیماری کا ذکرکرنا چاہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بیع عینہ‘‘ والی حدیث میں بیان کی کیونکہ یہ بیماری بعض اسلامی ممالک میں بہت پھل پھول رہی ہے اور دوسری جانب لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بموجب:
{لَا یَعْلَمُوْنَ} ’’نہیں جانتے۔‘‘
بیع عینہ:
بیع عینہ ایک قسم کا سودی معاملہ ہے جو حرام ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ شرعاً جائز ہے۔ بیع عینہ علماء میں معروف ہے جو ’’عین‘‘ سے مشتق ہے یعنی ((عین الشئی)) ’’اصل چیز یا متعین شے‘‘
مثلاً ایک شخص ایک گاڑیوں کے بیوپاری شخص کے پاس آتا ہے اور کچھ معلومات حاصل کرنے کے بعد گاڑی خرید لیتا ہے۔ اس نے یہ گاڑی اقساط پر خریدی ہے نقد پر نہیں۔ فرض کریں کے اس نے گاڑی بیس ہزار میں خریدی اب وہ شخص جس نے گاڑی اقساط پر خریدی دوبارہ گاڑیوں کے بیوپاری شخص کے پاس آتا ہے اور اسے وہی گاڑی نقد پر فروخت کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ اب جو گاڑیوں کا بیوپاری تھا وہ یہ بھانپ گیا کہ اس شخص کو گاڑی نہیں بلکہ پیسوں کی ضرورت ہے۔ آخر کار یہ دونوں فریق گاڑی کی اٹھارہ ہزار قیمت پر متفق ہوئے۔ چنانچہ وہ شخص جس نے گاڑی اقساط پر خریدی تھی اپنی گاڑی دوبارہ اٹھارہ ہزار میں بیچ دی۔ اس طرح وہ شخص اب بیس ہزار قرض کی ذمہ داری لے کر چلا گیا جبکہ فی الحقیقت اس نے صرف اٹھارہ ہزار ہی لیے تھے۔ بیع عینہ کے اس معاملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ سو یہ ان لوگوں پر بالکل واضح ہو جانا چاہیے جو اپنی خواہشات کے پیرو نہیں یا کم از کم بیع عینہ میں ملوث نہیں کہ اس کاروبار کی اصل حقیقت یہ ہے کہ قرضدار کے ذمہ اس کی وصول کی گئی رقم سے زیادہ واجب الادا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں اور سود کو تجارت قرار دینے میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اگر وہ شخص جاتا اور کہتا: ’’مجھے اٹھارہ ہزار قرض دو میں تمہیں بیس ہزار ادا کروں گا‘‘
|