Maktaba Wahhabi

104 - 264
اس مسئلہ میں سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا مؤقف: منہج سلف کے طالب علم پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں ہے کہ سلف کے یہاں حدیث میں اس تفریق کا نام و نشان تک نہیں ملتا اور نہ ہی ائمہ اربعہ کے یہاں اس تفریق کا کوئی وجود ملتا ہے کیونکہ یہ لوگ سلف ہی کے عقیدہ و عمل کے پیروکار تھے۔ البتہ بعض گمراہ فرقے جیسے معتزلہ اور خوارج وغیرہ ضرور اس راہ سے بھٹک گئے ہیں اور مومنوں کے راستے کی مخالفت کی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی وعید آئی ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا } (النساء:115) ’’اور جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ کی پیروی کرتا ہے توہم اس کو اسی کا والی بنا دیتے ہیں اور ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور یہ بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یہ واضح مثال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ محض کتاب و سنت کا تمسک ہی کافی نہیں ہے اورنہ ہی ان کو فائدہ دے سکتا ہے کیونکہ ان لوگوں نے حدیث آحاد کہہ کر سنت کو نہ صرف ٹھکرا کردیا ہے بلکہ اس کا انکار بھی کردیا ہے لہٰذا ایسے لوگوں سے بھی اور ان کے افکار و خیالات سے بھی بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس منہج اور راہ پر مضبوطی سے گامزن رہنا چاہیے جس پر سلف صالحین قائم تھے۔ ہم علامہ ابن القیم رحمہ اللہ جوزیہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ مضبوطی سے منہج سلف پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی وہی طریقہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اورانہوں نے اس منہج کو اپنے ایک شعر میں جمع بھی کردیا ہے: آپ فرماتے ہیں: ((العلم ماقال اللّٰہ وقال رسولہ…قال الصحابۃ…)) ’’یعنی علم وہ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے کہا ہو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کہا ہو۔‘‘ اس نظم میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ((العلم ما قال اللّٰہ قال رسولہ)) پر ہی
Flag Counter