علامہ شاطبی فرماتے ہیں کہ ایک بدعتی نے علم کلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ شافعی اور ابوحنیفہ کا علم حیض و نفاس سے آگے نہیں بڑھتا ہے یہ ان منحرفین کی باتیں ہیں۔‘‘ قاتلہم اللہ۔[1]
اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اصلاح کا طریقہ
مخلوق میں تغیر اور تبدیلی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا ایسے موقع پر تم میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اطاعت کو بھی لازم پکڑو اگرچہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔[2]
اس حدیث میں استدلال یہ ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اختلافات پیدا ہوں گے۔ اس معنی کے صحیح ہونے پر سالم کی روایت بھی دلالت کرتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے ام درداء سے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ :
((دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو الدَّرْدَائِ وَہُوَ مُغْضَبٌ، فَقُلْتُ: مَا أَغْضَبَکَ؟ فَقَالَ: وَاللّٰہُ مَا أَعْرِفُ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم شَیْئًا إِلَّا أَنَّہُمْ یُصَلُّوْنَ جَمِیْعًا۔))[3]
’’میرے پاس ابودرداء غصہ کی حالت میں تشریف لائے۔ میں نے کہا: آپ کو کس نے غصہ میں ڈال دیا ہے؟ تو ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اتنا جانتا ہوں کہ وہ صرف اکٹھا نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابودرداء کا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام اعمال میں نقص اور تغیر پیدا ہوگیا ہے، سوائے نماز کے کہ اس میں لوگ اکٹھا نماز پڑھتے ہیں۔ یہ امر نسبی ہے
|