کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور اسے دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے انہیں الفاظ {وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ} یعنی ’’اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے‘‘ سے وہ الفاظ اخذ کیے جو سابقہ حدیث میں بیان ہوئے ((واصحابی)) ’’اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ‘‘
اس قرآنی آیت کا جو اساسی نقطہ ہے وہ وہی ہے جو کہ اس حدیث میں بیان ہوا۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بعد میں آنے والے اور موجودہ دور کے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مومنوں کی راہ {سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ}کے علاوہ کوئی اور منہج اختیار کریں کیونکہ وہ لوگ اپنے رب کی جانب سے واضح ہدایت پر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ بعض سے زیادہ بیان کیا۔ میرا اشارہ خلفائے راشدین کی طرف ہے جیسا کہ حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں (حاکم کی) سمع وطاعت (سننے اور فرمانبرداری کرنے) کی اگرچہ وہ (حاکم) حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ پس بیشک تم میں سے جو (میرے بعد) لمبی عمر پائے وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ پس تمہیں چاہیے کہ میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رہو اور دین میں نئے کاموں سے بچو کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کی سنت کو بیان کیا اور اس کی بھی وہی حکمت ہے جو اس سے پہلے فرقہ ناجیہ کے متعلق آیت وحدیث کے تحت ذکر کی گئی۔
سلفی منہج:
مذکورہ بالا تینوں حوالہ جات سے ایک منہج ونظام اخذ کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا نظام کہ
|