دین کی طرف رجوع ہے جو ہم سے دو چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ میں نے انہیں ’’التصفیہ‘‘ اور ’’التربیہ‘‘ کا نام دیا ہے۔
التصفیہ والتربیہ:
’’التصفیہ‘‘سے میری مراد ہے کہ تمام علماء وفضلاء جو یہ چاہتے ہیں کہ زندگیوں پر اسلام کا نفاذ سلف صالحین کے طریق پر ہوان پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس اسلام کو ان چیزوں سے پاک و صاف یعنی خالص کریں جو اس میں بعد میں درآئیں جو پہلے اس کا حصہ نہ تھیں۔ ایسے پاکیزہ کریں جیسے بھیڑیا یوسف علیہ السلام کے خون سے پاک و بری تھا، یہ ایک پرانی عربی کہاوت ہے۔ پھر انہیں اس خالص وپاکیزہ ہونے والے اسلام کی دعوت دینی چاہیے، خواہ وہ عقیدہ کا معاملہ ہو یا ان احکام کا جن میں بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے یا پھر اخلاق، کردار وسلوک کا معاملہ ہو، الغرض دین کے خالص کرنے کا یہ عمل اسلام کے ہر شعبہ پر محیط ہوگا، وہ اسلام جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مکمل کیا۔ جس پر ہم مندرجہ ذیل حدیث کے ذریعے مزید روشنی ڈالیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
’’میں نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ سے قریب کرے اور جہنم سے دور مگر میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور کوئی چیز جو تمہیں اللہ سے دور لے جائے اور جہنم سے قریب مگر میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے۔‘‘[1]
اور اب جو اس صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں ان پر ایک بات ضرور واضح ہونی چاہیے وہ یہ کہ بہت سے قدیم جدید علماء اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سنت میں ایسی بہت سی اشیاء داخل ہوگئیں ہیں جو اس کا حصہ نہ تھیں اور یہ چیز تو پہلی صدی سے ہی وقوع پذیر ہونا شروع ہوگئی تھی جب چند فرقوں نے سرکشی کی اور اس چیز کی طرف دعوت دی جو قرآن وسنت سے متصادم تھی۔ مثال کے طور پر بعض خوارج کا ایک خارجی کا بیان ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنت کی
|