دلوں سے نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا۔‘‘ کسی نے دریافت کیا: ’’یہ وہن کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘ (دنیا کی محبت اور موت سے نفرت)۔‘‘[1]
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درست فرمایا کیونکہ ہر باشعور مسلمان اس بات کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ ہر برائی کی جڑ اس دنیا کی محبت ہے اور ہر فتنے کے پس پشت اسی کا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو؟ یہی وہ شئے ہے کہ جو انسان کو اپنی دولت اور اپنی جان کے بارے میں کنجوس، خود غرض اور بخیل بناتی ہے اور یہی جان و مال ہی تو ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا جاتا ہے۔ یعنی اپنی دولت خرچ کی جاتی ہے جو ہمیں بہت عزیز ہے اور اس سے بھی عزیز ترین چیز یعنی اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’شح (حرص نفس) سے بچو، اس حرص نفس نے ہی تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے انہیں خورنریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کر لیا۔‘‘[2]
جیسا کہ بہت سی کتب احادیث میں مروی ہے جن میں سے ایک صحیح مسلم بھی ہے۔
محارم الٰہی کو حلال کرنا:
یہاں اس موقع پر میں ایک چیز کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ محارم کو حلال کرنا دو طرح سے ہے۔
اول یہ کہ انسان حرام کام میں ملوث ہو مگر اس بات کے مکمل شعور کے ساتھ کہ یہ کام حرام ہے۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں میں اپنی تمام تر صورتوں اور اقسام کے ساتھ موجود ہے۔ حتیٰ کہ اکبر الکبائر یعنی شرک بھی ہمارے بعض معاشروں اور شخصیات میں عام ہے۔ جیسے آلام
|