کمزور تھے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ مسلمان قرآن وحدیث کی مخالفت نہ کریں الایہ کہ وہ اس منہج کی طرف رجوع کریں جس پر ہمارے سلف صالحین تھے۔ اور ہم مخلصانہ طور پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی ذمہ داری ان اختلافات پر ہے جن میں وہ قرآن وحدیث فہمی کے لیے اس منہج پر عدم انحصار کرتے ہیں، جسے ہم ’’سلفی منہج‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ وہ ضروری امر ہے جسے ہمیں مسلمانوں کی موجودہ حالت کے حوالے سے مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ہم اس منہج کی طرف لوٹ سکیں جس پر سلف صالحین گامزن تھے۔ جنہیں بطور فخر یاد کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت، شان وشوکت اور زمین پر غلبہ عطا کیا، جس کا مشاہدہ اسلام کی شاندار تاریخ کے ذریعے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ چند باتیں تھیں جو مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ذہن میں آئیں کہ جن کے متعلق مجھ سے سوال کیا گیا تھا اور اب ہم مسلمانوں کے اس زوال کے اسباب کا جائزہ لیں گے۔ (ان شاء اللّٰه )
مسلم امہ کے زوال کے اسباب:
علمائے کرام نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کے تحت بہت سی وجوہات کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ ان میں سے ہر ایک یا کم از کم ان میں سے کچھ اس بات کا بخوبی شعور رکھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام اسباب کو اپنی ایک صحیح حدیث میں جمع فرما دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’عنقریب تمام قومیں جمع ہوں گی اور تمہارے خلاف ایک دوسرے کو دعوت دیں گی، جس طرح کہ کھانے کی پلیٹ کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ ’’کسی نے پوچھا: ’’کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟‘‘ فرمایا: ’’ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت میں تم لوگ اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سمندر کی جھاگ کی مانند ہوگی اور یقینا اللہ تعالیٰ تمہارا رعب تمہارے دشمنوں کے
|