اب رہا حدیث میں جملہ ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ کی زیادتی تو یہ نسائی اور بیہقی ’’الأسماء والصفات‘‘ میں ہے اور یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ اس کو میں نے اپنی کتاب: ’’الزیادات الضعیفۃ فی الأحادیث الصحیحۃ‘‘ میں تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ ابن وضاح نے ’’البدع والنہی عنہا‘‘ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے اور کہا کہ اس کی سند حسن ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
جب آپ اس حدیث میں غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء راشدین کی سنت کو اپنی سنت پر عطف کیا ہے لہٰذا یہ حدیث فرقہ ناجیہ والی حدیث کے ساتھ مل جاتی ہے۔ نیز یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے قول سے بھی مل جاتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا}
(النساء:115)
’’اور جو شخص اس کے پاس ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے تو ہم اس کو اسی کا والی بنا دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم برا ٹھکانا ہے۔‘‘
اس قدر صریح وضاحت کے بعد اب کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اتباع کتاب و سنت کے نام پر کسی ایسے قول یا رائے کی پیروی کرے جو سلف صالحین کے قول یا رائے کے مخالف ہو کیونکہ جس راہ پر وہ لوگ گامزن تھے وہ کتاب و سنت کی ہی راہ تھی اور آپ سبھی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنت قرآن کریم کی تشریح توضیح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔
{وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ} (النحل:44)
’’(اے نبی!) اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو وہ چیز واضح طور پربتلادو ‘جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔‘‘
سنت کی اقسام اور اس تک رسائی کا بہترین طریقہ:
جیسا کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ یہ کام سونپا تھا کہ وہ قرآن کی تعلیمات کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ واضح کرکے بیان کریں اور آپ کی سنت تین قسموں میں منقسم ہوتی ہے: سنت قولی و فعلی، و تقریری۔
اب ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جاننے پہچاننے اور اس تک رسائی حاصل
|