کی ہے پھر اسی پر اپنے قول کا عطف کیا ہے اور فرمایا: {وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ} اب ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا راستہ اختیار نہ کرنے پر جن لوگوں کی سخت تنبیہ کی ہے وہ مسلمانوں ہی میں سے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے {مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَار} والی آیت میں کیا ہے۔ یقینا اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
حق کا معیار:
مذکورہ بالا آیت معیار حق ہے۔ اب جو مسلمان محض زبانی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہے حالانکہ اس کا عمل کتاب و سنت کے ـمخالف ہے اور مذکورہ بالا آیت میں مذکور مومنوں کے راستے کے بھی مخالف ہے تو ظاہر بات ہے کہ ایسا مسلمان حق کی مخالفت کرتا ہے بلکہ حق وہ ہے جس کے اندر صحابہ کرام کے راستے کی مکمل تمسک موجود ہو اس کے عمل میں اور صحابہ کرام کے عمل میں کوئی فرق نہ ہو۔یہاں آپ کے سامنے قرآن کریم اور صحیح حدیث کی واضح نص موجود ہے۔ آیت کریمہ میں مومنوں کے راستے کی وضاحت موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کا ذکر کیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں خلفاء راشدین کی سنت کا ذکر ہے جس کو سنن کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جیسے امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہم۔ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو ایک جامع اور بلیغ نصیحت کی۔ ایسی نصیحت جس سے قلوب خوفزدہ ہوگئے اور آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا لگتا ہے کہ یہ آخری نصیحت ہے لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت کیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أوصیکم بتقوی اللّٰہ…الحدیث))[1] ’’میں تمہیں اللہ سے تقویٰ اور سمع و طااعت اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔“اگرچہ تمہارے اوپر
|