زندگی بھر غیر اللہ کی عبادت کرتا رہتا ہے اور اس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ غیر اللہ کی پوجا کرتا ہے۔[1] یہی نہیں بلکہ وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے اس مسجد میں قبر ہوتی ہے وہاں جاکر اس سے مانگنا شروع کردیتا ہے، وہ مردہ سے مانگتا ہے جبکہ وہ گل سڑگیا ہے اور اللہ کو چھوڑ دیتا ہے جو زندہ ہے اور سب کو دیتا ہے اور اگر یہ میت زندہ ہوتا تب بھی ہر فریادی کی ہر ضرورتوں کو پوری نہیں کرسکتا… میں کہتا ہوں کہ ان تمام اعمال کے باوجود ہم ان پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے کیونکہ ان پر حجت قائم نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شام میں سلفی داعیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جو یہاں کے لیے کافی ہو۔ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے پھر ان کی باتوں کو سننے والے بھی دال میں نمک کے برابر ہیں۔ وہی مختصر لوگ ان کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی باتوں پر توجہ بھی دیتے ہیں۔
مذہب کے پیروکاروں کے بارے میں ہمارا موقف:
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اگر وہ سب کے سب یا ان میں سے کوئی ایک فرد کفر و شرک میں واقع ہوگیا تو ہم اس پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے۔ یعنی ہم اس کو کافر نہیں کہیں گے۔ لیکن ہم اس سے یہ بات ضرور کہیں گے کہ تمہارا یہ عمل کفرانہ یا مشرکانہ عمل ہے۔ تم اس سے باز آجاؤ۔
آج جمہور مسلمان جس راہ کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اسی راہ کو اپنا دین بھی بنائے ہوئے ہیں وہ ہے تقلید۔ یعنی آج جمہور مسلمان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید
|