Maktaba Wahhabi

105 - 264
اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس میں ’’قال الصحابۃ‘‘ کا اضافہ بھی کردیا ہے، اس کا سبب تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ آیت کریمہ اور احادیث صحیحہ واضح انداز میں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ناجی جماعت وہی ہے جو سلف صالحین اور صحابہ کرام کے منہج و راہ پر قائم ہے۔ اسی لیے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا: العلم ماقال اللّٰہ قال رسولہ قال الصحابۃ لیس بالتمویہ ماالعلم نصبک للخلاف سفاہۃ بین الرسول وبین رای فقیہ کلا ولا جحد الصفات ونفیہا حذرًا من التعطیل والتشبیہ ’’یعنی علم وہ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے کہا ہو اور صحابہ کرام نے کہا ہو۔ علم وہ نہیں ہے کہ رسول اور کسی فقیہ کے قول کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ پیدا کیا جائے اور نہ ہی علم وہ ہے جو صفات کی نفی اور انکار کا سبب بنے۔ یقینا تعطیل اور تشبیہ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کے دوسرے مصرعے میں حدیث آحاد اور حدیث تواتر کے مابین تفریق کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ لوگ عقیدہ کے باب میں حدیث آحاد کو نہیں مانتے ہیں جبکہ سلف صالحین ہر حدیث کو قبول کرلیتے تھے خواہ عقیدہ کے متعلق ہو یا احکام کے۔ صفات کے باب میں خلف کا مذہب سلف کی مخالفت کرنا ہے: خلف (یعنی بعد کے لوگ) جو راہ اختیار کیے ہوئے ہیں یا جس منہج پر قائم ہیں۔ وہ طریقۂ کار اور وہ منہج یقینا سلف صالحین کے منہج کے سراسر خلاف ہے کیونکہ یہ لوگ آیات صفات جس طرح نازل ہوئی ہیں اس طرح ان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کو یا تو مکمل چھوڑ دیتے ہیں یا اس کی تاویل کر ڈالتے ہیں جبکہ سلف صالحین کا طریقہ کار یہ تھا کہ آیات صفات
Flag Counter