Maktaba Wahhabi

66 - 264
تو موجودہ دور کے مسلمان بھی الحمد اللہ اسے یقینا سود قرار دیتے اور وہ ایسا کیوں کرتے؟ کیونکہ قرضدار پر جو رقم واجب الادا ہے وہ اس رقم سے زیادہ ہے جو اس نے حاصل کی، تو اس میں اور بیع عینہ میں کیا فرق رہا؟ درحقیقت یہ فروخت کا معاملہ حیلہ ہے سود کو حلال کرنے کا۔ یہ تو وہی حرکت ہے جس سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سے احادیث میں تنبیہ فرمائی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گذشتہ امتوں کے نقش قدم پر گامزن ہونے سے منع فرمایا ہے، اور بالخصوص یہودیوں کا ذکر کیا۔ یہود کی روش: مثلاً اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی حرام قرار دی۔ قرآن کریم میں ہے کہ: {فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَہُمْ} (النسائ:160) ’’جو نفیس چیزیں ان یہودیوں پر حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان کے ظلم کے باعث ان پر حرام کر دیں۔‘‘ یعنی ہم نے کچھ اچھی چیزیں ان پر حرام قرار دیں جو پہلے ان پر حلال تھیں۔ انہیں مفید چیزوں میں سے قرآن کریم کے اس حکم کے بموجب چربی ان پر حرام کی گئی جس کے بیان میں پہلے ایک حدیث پیش کی جا چکی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی اس سبب سے کہ ان پر چربی حرام کی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اسے پگھلا کر اس کی خرید و فروخت شروع کر دی۔ پس خبردار! اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا کھانا لوگوں پر حرام کر دیتا ہے تو اس کی تجارت اور کمائی بھی حرام کر دیتا ہے۔‘‘ یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک شرعی حکم یعنی حرمت شحم (چربی) کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ علیم وحکیم ہے کہ جس نے یہودیوں کی نافرمانیوں کے سبب ان پر چربی حرام کر دی پھر جب کوئی یہودی کسی فربہ بھیڑیا بکری کو ذبح کرتا تو صرف اس کا سرخ گوشت کھاتا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں چربی کو پھینک دیتا۔ مگر وہ اس حکم شرعی پر زیادہ عرصہ
Flag Counter