Maktaba Wahhabi

67 - 264
صبر نہ کر پائے اور انہوں نے اسے حلال کرنے کے لیے ایک حیلہ ایجاد کر لیا۔ پس انہوں نے اسے پگھلا دیا اور یہی معنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا کہ ’’انہوں نے اس کی محض ظاہری صورت وہیت بدل ڈالی۔‘‘ انہوں نے اسے برتنوں میں بھر کر اور نیچے سے آگ لگا کر پگھلایا جس کی وجہ سے چربی کی ظاہری صورت تبدیل ہوگئی یعنی مثل پانی مایہ ہوگئی۔ بعدازیں شیطان نے یہودیوں کے دل میں وسوسہ اندازی کی اور ان کی نظر میں اس عمل کو اس طور پر حسین بنا کر پیش کیا کہ یہ چربی اب چربی کہلانے کے لائق ہی نہ رہی۔ جبکہ وہ اس بات کا بخوبی شعور رکھتے تھے کہ یہ اب بھی اپنی فطرت، ترکیب اور ذائقہ میں چربی ہی ہے۔ اس مشہور مہاورے کے مانند جو بعض ممالک میں بولا جاتا ہے ((غیروا الشکل لاجل الاکل)) ’’محض اسے کھانے کی خاطر اس کی شکل تبدیل کر دی گئی‘‘ لیکن اس تبدیلی سے انہوں نے اس چیز کو حلال بنایا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال بنانے والے حیلے کا قصہ اور اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا ہفتہ والے دن مچھلیاں شکار کرنے کا حیلہ جو کہ انہوں نے ساحل پر جال بجھا کر اختیار کیا جیسا کہ تفاسیر میں مذکور ہے اس لیے بیان نہیں کیے کہ یہ محض تاریخی واقعات ہیں، بلکہ یقینا یہ اس لیے بیان ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ…} (یوسف: 111) ’’ان کے بیان میں عقل والوں کے لیے یقینا نصیحت وعبرت ہے۔‘‘ چنانچہ مندرجہ بالا دونوں قصوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ہرگز اس چیز کے مرتکب نہ ہوں اور ہرگز ایسے حیلے نہ تراشیں جن سے محارم الٰہی کے قریب جایا جا سکے۔ چنانچہ بیع عینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حرام قرار دے دی گئی ہے تاکہ ہم مسلمان ایسے حیلے نہ ایجاد کریں کہ حرام شئی یعنی سود کے قریب جایا جا سکے۔ وہ اس طرح کہ واجب الادارقم لیے گئے قرض سے زیادہ وصول کی جائے اور اس کے ظاہر کو تجارت کی صورت میں چھپا لیا جائے جس طرح کے یہودیوں نے چربی کی ظاہری صورت تبدیل کی تھی۔ یہاں آپ کو یہ جاننا چاہیے بہت سے علماء بیع عینہ کی حرمت کے قائل نہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اس حدیث کو صحیح
Flag Counter