نہیں مانتے کیونکہ علم حدیث ان کا تخصص نہیں اس بیع کے جواز میں محض لفظ ’’بیع‘‘ (تجارت) کے استعمال سے دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ مجرد لفظ بیع کا کسی معاملے میں وارد ہونا اس معاملہ کو بیع (تجارت) نہیں بناتا الایہ کہ شریعت میں اس کی حرمت وارد نہ ہوئی ہو۔
اگر ہم دوبارہ اس حدیث [1]کی طرف رجوع کریں تو ہم پائیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پہلی بیماری کا ذکر فرمایا وہ بیع عینہ ہی تھی۔ دیگر بیماریوں میں سے اس دنیا کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کا ترک کر دینا ہے۔ چنانچہ ہمیں اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ کہیں ہم خود وہی اعمال نہ کرنے لگ جائیں جن سے لوگوں کو روکتے ہیں یا پھر جن کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا اگر ہم وہ مقام ومرتبہ دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے رب نے ہمیں عطا کیا ہے تو یہ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
{…وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ…} (المنافقون: 8)
’’سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمانداروں کے لیے ہے۔‘‘
میری یہی کچھ گذارشات تھیں ان مفید سوالات کے جواب میں جو اس مبارک محفل میں کیے گئے جو قرآن وسنت کی محفل ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ سب کو قرآن وسنت صحیحہ اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ میں اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کرتا ہوں کیونکہ وہ الصَّمَدُ ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌo ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نواز دے اور ہمیں ہمارے دشمنوں پر نصرت عنایت فرمائے۔
انہ سمیع مجیب والحمد للّٰہ رب العالمین۔
|