رہتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی شخص ہمارے پاس نہیں آیا تاکہ ہمارے خلاف جو باتیں گشت کر رہی ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو کافر کہا ہے اس خبر کی ہم سے تصدیق کرسکے کہ آیا ہم نے اسے کہا ہے یا نہیں؟ اس کا مطلب یہی ہوا کہ مذکورہ آیت :
{وَاِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ }ان کے نزدیک منسوخ ہے۔ ورنہ اس آیت پر عمل کرتے ہوئے ہمارے پاس ضرور آتے اور اس خبر کی تصدیق کرتے کہ آیا ہم نے اس بات کو کہا ہے یا نہیں۔ اسی طرح اور دوسری غلط سلط خبریں لوگوں نے میری طرف منسوب کردی ہیں۔ حالا نکہ میں اس سے بری ہوں۔
اصل کتاب و سنت کی پیروی ہے:
ہم کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کے لیے کتاب و سنت کی پیروی ہی اصل ہے۔ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ تمام اعمال کتاب و سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتاب و سنت تک رسائی کیسے ہو؟ عالم تو اپنے علم کے ذریعے وہاں تک پہنچ جائے گا، لیکن ان پڑھ اور جاہل کیسے وہاں تک پہنچے گا؟ تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ اہل علم سے سوال کریں گے۔ وہ اہل علم جو کتاب و سنت کی باتیں دلیل سے بتاتے ہوں نہ کہ اقوال و آراء بتاتے ہوں، بلکہ جو عالم کتاب و سنت کو چھوڑ کر اقوال و آراء لوگوں کو بتاتا ہے۔ وہ لوگوں کو کتاب و سنت سے دور کرتا ہے اور یہ اسلام کے خلاف ہے۔ یہی نصاریٰ کا بھی طریقہ تھا کہ انہوں نے علماء و مشائخ کے اقوال پر عمل کیا اور تورات و انجیل کی باتوں کو چھوڑ دیا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی دنیا و آخرت دونوں تباہ و برباد ہوگئی۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایسے عالم سے مسائل پوچھنا چاہیے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کتاب و سنت ہی کی باتیں بتاتا ہے اور عالم کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو کتاب و سنت کی باتیں بتائے ورنہ خاموش رہے۔ اتنی صریح وضاحت کے بعد جو شخص ہماری جانب یہ بات منسوب کرتا ہے کہ ہم نے مذاہب کے پیروکاروں کو کافر یا مشرک کہا ہے تو وہ شخص جھوٹا ہے اور ہمارے اوپر بہتان باندھ رہا ہے۔ واللّٰہ حسیبہ یوم القیامۃ۔ اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس سے ضرور محاسبہ کرے گا۔
ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر بالخصوص علماء کرام پر یہ واجب اور ضروری ہے
|