سلفی دعوت کی اصطلاح کب سے رائج ہوئی؟
آج سے پہلے بھی بعض علماء نے اپنی دعوت کا نام ’’سلفی دعوت‘‘ رکھا تھا۔ اسی نہج پر قائم رہتے ہوئے آج بھی بعض علماء کرام نے اپنی دعوت کا نام ’’سلفی دعوت‘‘ رکھا ہے یہی سلفی دعوت کہیں ’’انصار السنہ المحمدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے جبکہ بعض دوسری جگہ یہی دعوت اہل حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سارے مختلف اسماء ایک ہی معنی و مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عمرو عبد المنعم سلیم فرماتے ہیں کہ جب اسم صفت کے موافق ہو تو اس وقت رسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے بلکہ اصل صفت ہی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص سنت محمدیہ کی طرف منسوب کرکے ’’انصار السنہ المحمدیہ‘‘ کہے یا سلفی یا اہل حدیث کہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ مقصود و مطلوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی ہے لیکن اگر سنت محمدیہ کے مطابق عمل نہیں ہے تو ان ناموں کے رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ محض جھوٹا دعویٰ ہے اور یہ باطل ہے اور یہ بات سب کو معلوم کہ اہل حدیث کی بنیاد کتاب و سنت کے عمل پر قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ پہلے بھی کچھ ایسی جماعتیں تھیں اور آج بھی ہیں جو اس واضح معنی و مفہوم سے یا تو غافل ہیں یا اگر غافل نہیں ہیں تو کم از کم اسے وہ حق نہیں دیتی ہیں جو دینا چاہیے تھا۔
مذہب بندی کے بارے میں سلفی موقف:
تیسری صدی تک تقلید کا تصور نہیں تھا بلکہ اس وقت تک لوگ ٹھیک کتاب و سنت کے اصول اور منہج پر قائم تھے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ارشاد میں تیسری صدی تک کے لوگوں کو خیر اور رشد و ہدایت پر قائم رہنے کی گواہی دی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم))
یعنی ”سب سے بہترین زمانہ میرازمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں۔‘‘
|