Maktaba Wahhabi

61 - 264
جانب رہنمائی نصیب ہوگئی تھی، کہتا ہے کہ: ’’ہمیں اس بارے میں انتہائی محتاط رہنا چاہیے کہ ہم اپنا دین کہاں سے حاصل کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں جو بات بھلی لگا کرتی تھی ہم اسے حدیث بنا لیا کرتے تھے۔‘‘ اسی وجہ سے امام ابن سیرین رحمہ اللہ (جو کہ ایک جلیل القدر تابعی تھے اور جن کی حافظ حدیث صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بکثرت احادیث مروی ہیں) میں نے فرمایا: ’’اس بات پر بھر پور توجہ دو کہ تم اپنا دین کہاں سے حاصل کر رہے ہو۔‘‘[1] اس قول کو بطور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی کیونکہ اس کے راویوں کی سند ابن سیرین رحمہ اللہ تک موقوف ہے اور یہی وجہ ہے محدثین کرام کے اس قول کی کہ’’اسناد دین کا اہم جزء ہیں، اگر یہ اسناد نہ ہوتیں تو ہر شخص جو اس کا جی چاہتا دین کے تعلق سے کہہ جاتا۔‘‘ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس پر نظریاتی حد تک تو علماء کا اجماع ہے۔ جی ہاں! میں بخوبی آگاہ ہوں کہ جب میں نے کہا کہ ’’نظریاتی حد تک‘‘ یہ اس لیے کہ مجھے یہاں ایک تلخ حقیقت کی ضرور نشاندہی کرنی پڑے گی وہ یہ کہ عملی طور پر جمہور علماء نے ان اسناد پر وہ توجہ نہیں دی جو اس پر دینی چاہیے تھی۔ البتہ علماء کا ایک مختصر گروہ ایسا تھا جنہوں نے یقینا اس پر توجہ دی اور وہ محدثین کرام تھے جن میں کچھ مشہور یہ ہیں: امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی اور ان کے تلامیذ جیسے امام بخاری وامام مسلم اور دیگر محدثین اور آئمہ جریح وتعدیل رحمہم اللہ ۔ ہمیں جس سنت پر اس کے تصیفہ کے بعد پیش رفت کرنی ہے اس سنت کو خالص کرنے کے لیے ہمیں انہیں جیسے رجال پر اعتماد کرنا ہے۔ کتب سنت آج وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لیے ان کے دین کو مکمل محفوظ رکھا اپنے اس وعدے کے ذریعہ جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے: {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ،} (الحجر: 9)
Flag Counter