Maktaba Wahhabi

64 - 264
ان دونوں امور یعنی جن سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ فرمایا کو باہم یکجا کرنے سے ہمیں وہ علاج وحل نصیب ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جانب سے مسلط ہونے والی ذلت ورسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے تجویز فرمایا۔ یہ پہلے مرحلے ’’تصفیہ‘‘ کا بیان تھا۔ دوسرا مرحلہ جو علمائے کرام کے سابقہ بیان کردہ تصفیۃ کا عمل کر لینے کے بعد شروع ہوگا، وہ ’’تربیہ‘‘ ہے۔ انہیں لازماً اس ’’تربیہ‘‘ کے عمل کے ساتھ اپنے خاندانوں اور ماتحت لوگوں کی اسی خالص نہج پر تربیت کرنی ہوگی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کہیں ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جائے جو وہ کہتے ہیں کرتے نہیں کیونکہ ہمارے رب کا فرمان مبارک ہے: {یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ، کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ،} (الصف: 2۔3) ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں ہتے ہو جو کرتے نہیں، تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے۔‘‘ ’’اس امت کو بشارتیں دے دو کہ اللہ تعالیٰ انہیں عروج بخشے گا اور انہیں دنیا میں غلبہ عطا فرمائے گا۔ پس جو شخص بھی حصول آخرت والا عمل دنیاوی مقاصد ومفادات کے لیے سر انجام دے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘[1] اس حدیث سے ہم پر یہ واجب ہوتا ہے جب ہم اپنے اس خالص شدہ دین پر عمل پیرا ہوں تو ہمارا عمل خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے جیسا کہ ہمارے رب کریم کا فرمان ہے: {وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ} (البینۃ:5) ’’اور انہوں تو حکم ہی نہیں دیا گیا تھا مگر اس بات کا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘ میں اس تقریر کے اختتام پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں ترقی کے اس سفر میں تمام محارم سے
Flag Counter