Maktaba Wahhabi

75 - 264
ثابت ہے پہلے لفظ کے ساتھ یعنی ’’کلہا فی النار إلا واحدۃ‘‘ تک جن علماء کرام نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے وہ حاکم اور ذہبی ہیں۔ حافظ ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور علامہ شاطبی نے بھی ’’الإعتصام‘‘ میں اس کو ’’حسن‘‘ کہا ہے علامہ ابن تیمیہ نے اس کو صحیح مشہور کہا ہے۔ البتہ بعض معاصرعلماء نے اس کے متن میں کچھ اشکال پیدا کیا ہے لیکن محققین علماء کرام نے اس کا بھی بہترین جواب دیا ہے۔ رہا حدیث کا دوسرا لفظ جو اس حدیث کے آخر میں ’’جماعۃ‘‘ کی تفسیر کے طور پر وارد ہواہے وہ لفظ یہ ہے: ’’ھی التی تکون علی ما أنا علیہ وأصحابی‘‘ تو یہ لفظ عبد اللہ بن عمرو بن عاص، عوف بن مالک اور صحابہ کی ایک جماعت کی روایت میں وارد ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے۔ علامہ عمرو بن المنعم سلیم نے اپنی کتاب ’’أصول أہل الحدیث‘‘ میں اس پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ نیز کسی بھی صحیح روایت میں یہ نہیں ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث میں وارد لفظ ’’جماعت‘‘ کے معنی و مفہوم کے متعلق سوال کیا ہو؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس لفظ کا معنی ومفہوم صحابہ کرام کو معلوم تھا کیونکہ یہ بات فہم سے بعید ہے اور مستحیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناجی جماعت کا راستہ کسی ایسے مبہم لفظ سے بتائیں جو لفظ صحابہ کرام کے نزدیک معروف نہ ہو اور یہ بھی مستحیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس مبہم لفظ کو سن کر خاموش رہیں اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کریں۔ احادیث صحیحہ، فہم صحابہ اور علماء سلف کے اقوال کودیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں وارد لفظ ’’جماعت‘‘ سے مراد اہل فقہ، اہل علم، اہل حدیث اور متبعین سنت ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’الجامع‘‘ 4/347میں کہا ہے کہ اہل علم کے نزدیک جماعت سے مراد: ’’اہل الفقہ والعلم الحدیث‘‘ ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں جارود بن معاویہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسن سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مبارک سے سنا: جماعت سے مراد کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ابوبکر و عمر ہیں۔ ان سے کہا گیا کہ: ابوبکر و عمر تو فوت ہوچکے ہیں تو کہا: فلاں وفلاں ہیں۔ پھر کہا گیا کہ: فلاں و فلاں بھی وفات پاچکے ہیں تو عبد اللہ بن
Flag Counter