تصورایک بدعتی اور نفس پرست کا تو ہوسکتا ہے لیکن اہل سنت کا کبھی نہیں ہوسکتا اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہر ایک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حدیثیں نہیں مل سکی تھیں کچھ نہ کچھ ضرور ان سے غائب رہیں۔ حدیثیں نہ ملنے کی وجہ سے انہیں اجتہاد کرنا پڑا اب اگر ان کا اجتہاد درست رہا تو انھیں دوہرا اجر ملا اور اگر اجتہاد درست نہیں رہا تو ایک اجر کے مستحق ہوئے۔ کیونکہ ان کا مقصد صرف حق تک رسائی تھا۔ اب آیئے تقلید کو ترک کرنے کے سلسلے میں ائمہ کرام کے اقوال کو ملاحظہ فرمائیے:
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں ایک انسان ہوں میرے اندر خطا اور صواب دونوں کا امکان ہے لہٰذا میری رائے کو دیکھو اگر وہ کتاب و سنت کے موافق ہے تو اسے لے لو، ورنہ اسے چھوڑ دو۔[1]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تم میری کتاب میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی چیز پاؤ تو اس کو چھوڑ دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لے لو۔[2]
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تم اپنے دین میں ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہے اسے لے لو ورنہ چھوڑ دو۔[3]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں: اے یعقوب! مجھ سے سن کر تمام چیزوں کو مت لکھا کرو کیونکہ میں آج کوئی رائے دیتا ہوں اور کل اسے چھوڑ دیتا ہوں۔[4]
تفرقت الیہود علی احدی وسبعین فرقۃ الخ الحدیث۔ شیخ عمرو عبدالمنعم سلیم اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس حدیث کو ابوہریرہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبد اللہ عمرو بن عاص، سعید بن ابی وقاص، عوف بن مالک، انس بن مالک، عمرو بن عوف، ابوامامہ، ابن مسعود اور صحابہ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح اور
|