Maktaba Wahhabi

77 - 264
شیخ عمر عبد المنعم سلیم کہتے ہیں: یہ مسئلہ انتہائی اہم اور نازک ہے کہ لوگ اپنی نسبت تو کتاب و سنت کی طرف تو ضرور کرتے ہیں لیکن ان کا عمل کتاب و سنت کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔ یہ تو ان کا محض دعویٰ ہے اور دعویٰ بغیر دلیل کے باطل ہے اسی طرح وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی نسبت سلف صالح کی طرف تو کرتے ہیں حالانکہ ان کا عمل ان کے خلاف ہوتا ہے، یہ بھی محض دعویٰ ہی ہوتا ہے۔ امام بربہاری رحمہ اللہ اپنی مبارک تصنیف ’’شرح السنۃ‘‘ ص 57 میں فرماتے ہیں: ((لا یحل لرجل أن یقول فلان صاحب سنۃ، حتی یعلم أنہ قد اجتمعت فیہ خصال السنۃ، فلا یقال: صاحب سنۃ حتی تجتمع فیہ السنۃ کلہا)) یعنی کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ فلاں شخص صاحب سنت ہے جب تک اسے یہ نہ معلوم ہو کہ اس کے اندر سنت کی خصلتیں موجود ہیں یعنی وہ تمام سنتوں پر عمل کرتا ہے۔ عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ: بہتر فرقوں کی اصل چار فرقے ہیں اور انہیں چار فرقوں سے بہتر فرقے وجود میں آتے ہیں وہ چاروں فرقے یہ ہیں: قدریہ، مرجئہ، شیعہ، خوارج۔ اب جس نے ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم کو دیگر صحابہ کرام پر مقدم کیا ہے اور دوسرے صحابہ کرام کے بارے میں بھی خیر کا گمان کیا ہے اور ان کے حق میں دعاء خیر بھی کیا ہے تو ایسا شخص شیعہ گروپ سے خارج ہوگیا ہے اور جس نے کہا کہ ’’ایمان قول و عمل کا نام ہے اور گھٹتا بڑھتا رہتا ہے تو ایسا شخص مرجئہ گروپ سے نکل گیا اور جس نے یہ کہا کہ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز جائز ہے اور ہر خلیفہ کے ساتھ مل کر جہاد ہے اس نے بادشاہ وقت کے خلاف خروج کو ناجائز سمجھا بلکہ ان کے حق میں خیر کی دعا کرتا رہا تو ایسا شخص خوارج سے نکل گیا اور جس نے کہا کہ ہر تقدیر اللہ کی جانب سے ہے خواہ و تقدیر خیر کی ہو یا شر کی وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے تو وہ قدریہ فرقہ سے نکل گیا۔ اب ایسا شخص صاحب سنت ہے یانہیں ؟ میں (شیخ عمر) کہتا ہوں اس دور میں کتنے ایسے فرقے وجود میں آگئے ہیں جو اہل سنت
Flag Counter