کے اصول و عقائد کو برا تصور کرتے ہیں، بلکہ کتنے ایسے داعی ہیں جو اپنی دعوت میں سلف صالحین کے عقائد اور ان کے منہج کا خیال نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کتاب و سنت کا وہ فہم ہوتا ہے جو فہم سلف صالحین کے پاس تھا۔ وہ باطل افکار و خیالات اور فاسد دلائل و براہین کی بنیاد پر اصول و اعتقاد میں اختلاف کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہ اس منحوس قول پر عمل کرتے ہیں:
((نعمل فیما اتفقنا علیہ، ویعذر بعضنا بعضًا فیما اختلفنا فیہ))ہم متفق علیہ مسئلے پر عمل کرتے ہیں اور اختلافی امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ اصول و اعتقاد اور منہج کے علاوہ دوسرے مسائل میں تو ممکن ہے کہ اس عبارت کا اعتبار کیا جائے لیکن اعتقادی اور منہجی امور میں اس عبارت کا کوئی اعتبار نہیں۔ آپ خود سوچیں کہ کیا آپ کسی قدریہ فرقہ کے ساتھ اتفاق کرسکتے ہیں جس کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کی تقدیر کو نہیں لکھا ہے یعنی ان کا تقدیر پر ایمان ہی نہیں ہے۔ اسی طرح کیا آپ رافضی خبیث کے ساتھ اتفاق کرسکتے ہیں جو اُمہات المومنین کو گالیاں دیتا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو مجروح کرتا ہے۔ اسی طرح کسی خارجی فرقہ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں جو لوگوں کو کافر کہتا رہتا ہے اسی طرح کسی مرجئہ فرقہ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں جس کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان صرف قول کا نام ہے عمل اس میں داخل نہیں۔ اسی طرح مردود جہمیہ فرقہ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں جس کا فاسد عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معدوم ہے (نعوذ باللہ) یعنی اس کا وجود ہی نہیں ہے۔
سلفی کی حقیقت:
ہم نے شروع میں جن ساتھیوں کا تذکرہ کیا ہے یہ لوگ اگرچہ سلفی کے علاوہ دوسرے ناموں سے بھی مشہور ہیں لیکن یہ سب کے سب دوسرے اسلامی فرقوں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ لوگ کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں ان کو چھوڑنا تصور بھی نہیں کرتے ہیں یہ لوگ اسی نہج پر قائم ہیں جس پر صحابہ کرا م تھے جس پر تابعین و تبع تابعین تھے اور یہ وہ نفوس
|