قدسیہ تھے جن کے خیر و افضل ہونے کی شہادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم))[1] صحابہ کرام کے پیروکار تابعین پھر ان کے بعد تبع تابعین یہ لوگ اپنی دعاؤں میں کہتے تھے: ((ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان۔)) ’’اے ہمارے رب! تو ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ایمان کے ساتھ پہلے جاچکے ہیں۔‘‘اب جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا شمار بھی ناجی جماعت میں ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے جو صحابہ کرام کا تھا اور اسی طرح عمل کرے جس طرح صحابہ کرام اور تابعین عظام عمل کیا کرتے تھے یہی سلف صالحین ہیں اور ہم انہیں کی اقتداء کرتے ہیں۔ فللّٰہ الحمد والشکر۔
اب جو شخص یہ چاہتا ہے… الخ۔ علامہ عمرو عبد المنعم سلیم کہتے ہیں کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس قول میں کئی مسائل ہیں:
1: دنیا میں اعمال کی درستگی اور آخرت میں نجات اسی وقت ہوگی جب صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم کو اختیار کیا جائے کیونکہ یہی تینوں صدی کے لوگ ہیں جن کے خیر و افضل ہونے کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور جو صحیح حدیث میں موجود ہے۔
2: ضروری ہے کہ سلفیت کی طرف نسبت حقیقی ہو اور حقیقی اسی وقت ہوگی جب صحیح صحیح ان کے نقش قدم کو اختیار کیا جائے محض زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی، ایسا نہ ہو کہ ان کے فہم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے فہم کو اختیار کیا جائے جبکہ دوسرے کا فہم صحابہ کرام کے فہم سے بہت مختلف ہے اور آج کے مبلغین اس مرض میں مبتلا ہیں۔
|