3: سلف صالحین کا نقش قدم اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے کسی شاذ و نادر قول کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے یا ان کا کوئی نادر فہم یہ ہو تو اس کو لے لیا جائے بلکہ مراد ان کا عام فہم ہے اور عام اقوال ہیں۔ اسی طرح ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے اجتہادات کو چھوڑ کر کسی ایسے نئے اجتہادی رائے کو لے لیا جائے کہ اس نئی اجتہادی قول یا رائے کو اس سے پہلے کسی نے نہ کہا ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد ابوالحسن میمونی سے کہا تھا: ((لا تتکلم فی مسألۃ لیس لک فیہا إمام۔))[1] ’’کسی ایسے مسئلہ میں تم مت بولو جس مسئلہ میں تمہارا کوئی امام نہ ہو یا یعنی اس سے پہلے اس مسئلہ میں کچھ نہ کہا ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا: ((لا یکاد شیء إلا ویوجد فیہ عن أصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم۔)) ’’یعنی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے مگر اس میں صحابہ کرام کے اقوال ضرور موجود ہیں۔‘‘
4: سلف صالحین کے انہی اجتہادی اقوال و آراء کو لیا جائے گا جو دلیل کے موافق ہوگا اور جو قول نص کے مخالف ہوگا اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ انھیں نص نہ پہنچی ہو ورنہ جان بوجھ کر وہ لوگ نص کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ عند اللہ ماجور ہوں گے کیونکہ اگر مجتہد کے اجتہاد میں بھول چوک ہو گئی ہے تو ایک اجر ہے اور اگر صحیح اجتہاد کیا ہے تو دو اجر ہے۔ اسلاف میں سے جنہوں نے بھی نص کی مخالفت کی ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ انہیں نص ملی نہیں ورنہ عمداً انہوں نے نص کی مخالفت کبھی نہیں کی، البتہ جن مسائل میں علماء کرام سے بھول چوک ہوگئی ہے یا ان سے لغزش ہوگئی ہے ان مسائل کو اگر کسی نے جمع کیا اور اس کو بنیاد بنایا تو گویا اس نے تمام شر کو جمع کیا اور ہلاک ہوگیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا تھا: ’’ثلاث یھد من الإسلام: زلۃ عالم، جدال منافق بالقرآن، وأئمۃ مضلون۔‘‘[2]
|