تین چیزیں اسلام کو ڈھا دیں گی: عالم کی لغزش، منافق کا قرآن سے جدال اور گمراہ ائمہ۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: جس نے متعہ کے بارے میں مکہ والوں کے قول کو لیا اور نبیذ کے بارے میں کوفیوں کے قول کو لیا، غناء کے بارے میں مدینہ والوں کے قول کو اور عصمت خلفاء کے بارے میں شامیوں کے قول کو لیا۔ اس نے تمام شر کو جمع کردیا۔[1]
5: عقل کو نقل پر مقدم نہ کیا جائے اور نہ ہی فاسد اور رکیک تاویلات کو بنیاد بنا کر کتاب و سنت کے نصوص کو ردّ کیا جائے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ((علیک بآثار من سلف وإن رفضک الناس۔)) [2] ’’تم سلف صالحین کے اقوال کو لازم پکڑو اگرچہ اس کی وجہ سے لوگ تم سے قطع تعلق کرلیں۔‘‘
6: سلف صالحین کے اقوال کو حجت بناتے وقت صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے درمیان فرق کیا جائے (یعنی پہلے صحابہ کرام کے اقوال کو لیا جائے گا ان کے پاس نہ ملے تو تابعین کے اقوال کو لیا جائے گااوراگر ان کے پاس بھی نہ ملے تو تبع تابعین کے قول کو لیا جائے گایہ ترتیب ضروری ہے)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحابی کے قول و عمل کو سنت کہا جاسکتا ہے؟ تو اس کے جواب میں قدرے تفصیل ہے!
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی رائے کہ صحابہ کرام کے آثار و اقوال حجت ہیں بلکہ حجت کے اعتبار سے انھیں سنت کا مقام حاصل ہے۔ بخلاف تابعین کے اقوال اور ان کے احکام و اجتہادات کے، یہ بات ابوداؤد سجستانی کی کتاب ’’المسائل‘‘ ص :276میں بصراحت موجود ہے۔ ابوداؤد سجستانی کہتے ہیں کہ میں نے کئی بار احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا ہے جب بھی آپ سے سوال کیا گیا کہ ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال سنت ہیں؟ تو آپ نے کہا: ہاں اور کبھی آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے: ’’علیکم بسنّتی
|