وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ تم لوگ میری سنت کو اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
پھر آپ سے پوچھا گیا: عمر بن عبد العزیز؟ تو آپ نے کہا: نہیں، پھر آپ سے کہا گیا: کیا وہ امام نہیں تھے؟ آپ نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کے قول کو بھی معاذ اور ابن مسعود کے قول کے مانند سنت کہا جاسکتا ہے؟ آپ نے کہا کہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ان میں سے کسی کے قول کی مخالفت کروں۔‘‘ اور آپ کا ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ: وہ اثر کو حدیث کے قائم مقام رکھتے تھے اور کبھی کبھی اثر اور حدیث مرفوع کے درمیان تطبیق کی راہ اختیار کرتے تھے تاکہ دونوں میں سے کسی پر عمل باطل نہ ہوجائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ صحابہ کرام کے اقوال کو حجت ماننے میں امام احمد کے موافق ہیں مگر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کتاب و سنت سے دلیل نہ ملے تو ایسی صورت میں صحابہ کرام کے اقوال کو مطلقاً حجت بنانا جائز ہے، جیسا کہ بیہقی نے ’’المدخل إلی السنن الکبریٰ‘‘(35) میں صحیح سند کے ساتھ امام شافعی کا قول نقل کیا ہے: امام شافعی کہتے ہیں:
((ما کان الکتاب أو السنۃ موجودین، فالعذر علی من سمعہا مقطوع إلا بإتباعہا، فإذا لم یکن ذلک، صرنا ؟إلی أقاویل أصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم أو أحد منہم۔))
جب تک کتاب و سنت میں دلائل موجود ہوں اس وقت تک انہی دونوں کی اتباع ضروری ہے۔ اگر ان دونوں میں دلائل موجود نہ ہوں تو صحابہ کرام کے اقوال کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کی طرح ہے البتہ ان کے نزدیک اختیار ہے جس کو چاہیں لیں اور جس کو چاہیں چھوڑدیں۔ چنانچہ ابن معین نے اپنی ’’تاریخ‘‘ میں دوری کی روایت (4219) کو یحییٰ بن ضریس سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں سفیان کے پاس موجود تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: جناب آپ امام ابوحنیفہ پر کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا: انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ’’میں پہلے کتاب اللہ کو لوں گا اگر اس میں مسئلہ نہیں پاؤں گا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوں گا اگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں
|