ظاہری اور باطنی حصے کو دھوتے تھے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لیتے تھے۔ اس پر کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ ’’مسائل اسحاق نیساپوری‘‘ میں امام احمد رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
(3)… صحابی کے مذہب کی جب دوسرے صحابی مخالفت کریں۔ یہ اس مسئلہ میں ہے جس میں کتاب و سنت سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے تو اس قول کے چند درجات و مراتب ہیں:(الف): یہ ہے کہ خلفاء راشدین میں سے کسی کا قول ہو تو ان کا قول دوسرے صحابی کے قول پر مقدم ہوگا کیونکہ اس بارے میں نص صریح ہے:
((علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین۔)) [1]
’’یعنی میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
اس ارشاد نبوی میں لفظ ’’علیکم‘‘ ہے جو امر ہے اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’صلوٰۃ التراویح‘‘ میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
((وقد أمرنا بإتباع سنتہ صلي اللّٰه عليه وسلم وسنۃ الخلفاء الراشدین)) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اپنی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے اور سنت خلفاء راشدین کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کا مختار مذہب ہے، جیسا کہ ’’المدخل، للبیہقی (38)‘‘ میں موجود ہے۔ نیز اس کی تائید وہ قول کرتا ہے جو علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((انی لأستحی من ربی أن أخالف أبابکر۔))[2]
’’بے شک میں اپنے رب سے حیا کرتا ہوں کہ ابوبکر کی مخالفت کروں۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو اگر قرآن میں اس کا حل موجودہوتا تو فوراً بتادیتے اور اگر قرآن میں نہیں پاتے تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا تو فوراً بتا دیتے اور اگر سنت میں بھی نہیں ہوتا تو ابوبکر و عمر کے قول کو دیکھتے اگر ان دونوں سے بھی کوئی قول نہیں ملتا تو اپنی رائے سے بتاتے۔[3]
|