Maktaba Wahhabi

239 - 264
کے لوگ قائم ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کی ۔[1] ان کے پاس نہ تو شدت ہے اور نہ ہی غلو اور نہ ہی کوئی ایسی علت بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے انقیاد و اتباع اور پیروی کرنے میں کوئی خلل واقع ہو۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: ’’اقتصاد‘‘ اور ’’تقصیر‘‘ میں فرق یہ ہے کہ اقتصاد افراط و تفریط کے درمیان میانہ روی کا نام ہے۔اس کے دو کنارے ہیں اور دونوں کنارے اس کے ضد ہیں اور تقصیر حد سے تجاوزکرنا ، لہٰذا مقصد میانہ روی کو اختیار کرکے مذکورہ دونوں کناروں سے اعراض کرجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا} (الفرقان:67) ’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف سے کام نہیں لیتے نہ بخیلی سے بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ نیز فرمایا: {وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا،} (الاسرائ:29) ’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا مت رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیاہوا اور درماندہ بیٹھ جائے ۔‘‘ اور فرمایا: {وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا} ’’اور کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔‘‘ پورا دین اسلام افراط اور تفریط کے درمیان ہے بلکہ آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ
Flag Counter