اسلام دوسرے ملل و مذاہب کے درمیان درمیانہ مذہب ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ سنت اور بدعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی حکم دیا ہے اس میں شیطان کے دو راستے ہیں: یا تو وہ غلو کی طرف مائل کرے گا یا تفریط و تقصیر کی طرف لے جائیگا اور یاد رکھو یہ دونوں بہت بڑی آفت اور گمراہی کے راستے ہیں ان سے وہی شخص نجات پاسکتا ہے جو صدق دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا اور لوگوں کے آراء و اقوال کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے گا ۔
یہ دونوں راستے مہلک مرض ہیں جو اکثرلوگوں میں سرایت کرگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے ان دونوں ہلاکت خیز راہوں سے سختی سے متنبہ کیا ہے۔ کبھی کبھی یہ دونوں خصلتیں کسی ایک شخص میں پائی بھی جاتی ہیں۔ مثلاً: کسی معاملے میں وہ شخص بڑی کوتاہی سے کام لیتا ہے جبکہ وہی شخص دوسرے معاملے میں غلو سے کام لیتا ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔[1]
اس کے برخلاف سلفی حضرات تشدد اور غلو، افراط و تفریط سے کافی دور رہتے ہیں۔ غلو کا معنی یہ ہے کسی شے میں مبالغہ کرنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ اس میں تعمق کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ :
((قَالَ لِي رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم غَدَاۃَ الْعَقَبَۃِ وَہُوَ عَلٰیَ رَاحِلَتِہِ: ہَاتِ الْقُطْ لِي فَلَقَطْتُ لَہُ حَصَیَاتِ ہُنَّ حَصَیٰ الْخَذْفِ فَلَمَّا وَضَعْتُہُنَّ فِي یَدِہِ قَالَ: بِأَمْثَالِ ہٰؤُلَائِ، وَإِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّیْنِ، فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّیْنِ۔))[2]
’’مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے کی صبح فرمایا، اس وقت آپ اپنی
|