Maktaba Wahhabi

221 - 264
کے دن میں اس کے لیے حجت ہوں گا۔‘‘ یہ لوگ امام کے خلاف خروج کرتے ہیں اور نہ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کافر قرار دیتے ہیں، ہاں اگر دلیل کی بنیادپر ان سے کفر سرزد ہو تو ان کے خلاف اس وقت خروج کرتے ہیں جب انھیں مکمل یقین ہو کہ فساد پر قابو پالیں گے اور اس کے ملک پر اور لوگوں پر کوئی فساد برپا نہیں ہوگا۔ ورنہ اس سے باز رہنا بہتر اور واجب ہے۔ جنادہ بن امیہ سے روایت ہے کہ : ((دَخَلْنَا عَلَیٰ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَہُوَ مَرُیْضٌ قُلْنَا: أَصْلَحَکَ اللّٰہُ، حَدِّثْ بِحَدِیْثٍ یَنْفَعُکَ اللّٰہُ بِہِ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، قَالَ: دَعَانَا النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَبَایَعْنَاہُ فَقَالَ فِیْمَا أَخَذَ عَلَیْنَا أَنْ بَایَعَنَا عَلَیٰ السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَکْرَہِنَا، وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وَأَثَرَۃً عَلَیْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ۔))[1] ’’ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ بیمار تھے ہم نے عرض کیا کہ ہم سے حدیث بیان کیجیے اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا رکھے ایسی کوئی حدیث ہے جس سے اللہ تعالیٰ فائدہ دے اور جس کو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو انھوں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا، ہم نے آپ سے بیعت کی اور بیعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ اقرار لیا کہ ہم خوشی و نا خوشی اور تنگی و فراخی الغرض ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنیں گے اور اسے بجا لائیں گے گو ہم پر ،دوسروں کو ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اقرار لیا کہ سلطنت کی بابت ہم حکمرانوں سے جھگڑا نہیں کریں گے مگر اس صورت میں کہ جب اسے اعلانیہ کفر کرتے دیکھو ایسا کفر کہ جس کے متعلق اللہ کی طرف سے تمہارے پاس
Flag Counter