Maktaba Wahhabi

222 - 264
دلیل بھی موجود ہو۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: اسی لیے اہل سنت والجماعت کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ جماعت کو لازم پکڑے رہنا چاہئے اور امراء و حکام سے قتال نہیں کرنا چاہئے ، کسی فتنے کے موقعے پر بھی قتال نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے برخلاف نفس پرست جیسے معتزلہ ہیں تو ان کا خیال یہ ہے کہ امراء و حکام سے قتال جائز ہے یہ ان کے اصول میں داخل ہے۔[1] یہ لوگ وہ طریقہ قطعی نہیں اختیار کرتے جو جماعت کے اختلاف کا سبب بنے، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ امراء اور حکام سے حسن ظن رکھیں۔ اسی لیے یہ لوگ نہ تو منبر و محراب پر ان کا بے ادبی سے ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی جلسے جلوس میں یا اپنی تقریروں میں ان کے خلاف آوازیں کستے ہیں۔ اسی مفہوم پر گزشتہ نصوص دلالت کرتی ہیں اور یہی مفہوم سلف صالحین کے قول و عمل سے بھی ثابت ہے۔ یہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہیں ان سے کہا گیا تم عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس کیوں نہیں جاتے، پھر ان سے بات کرتے تو انھوں نے کہا: کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ میں ان سے بات نہیں کرتا، میں تم کو سناؤں، اللہ کی قسم! میں ان سے بات کرچکا ہوں جو مجھ کو اپنے اور ان کے درمیان کرنا تھی، البتہ میں نے یہ نہیں چاہا کہ وہ بات کھولوں جس کا کھولنے والا پہلے میں ہی ہوں۔[2] یہ عبد اللہ بن اوفیٰ ہیں۔ مسند احمد میں ہے سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کے پاس آیا۔ وہ نابینا تھے میں نے ان سے سلام کیا، انھوں نے مجھ سے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعید بن جمہان ہوں۔ انھوں نے کہا: تمھارے والد نے کیا کیا؟ وہ کہتے تھے : میں نے کہا: ان کو ازارقہ نے قتل کردیا ہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر، اللہ کی لعنت ہو ازارقہ پر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں۔ میں پوچھا کہ صرف ازارقہ یا خوارج بھی ان میں شامل ہیں؟ فرمایا: خوارج بھی ان میں شامل
Flag Counter